اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے

تحریر: سید ابو الحسن علی ہاشم ایس ایم

یورپ خواب غفلت سے بیدار ہوا چاہتا ہے، زمانہ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی کا ہے، دنیا کی باگ ڈور مسلمانوں کے ذمہ ہے اور انسانیت اسلامی تعلیمات کی آغوش میں ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔۔کہ اچانک کچھ ہی عرصہ میں حالات یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں، سیکولرازم اور جمہوریت کی آڑ میں کچھ لالچی اور احمق قسم کے لوگ یکا یک یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کا دور اب ختم ہو چلا ہے، دنیا کی ترقی اب یورپ کے خالص مادی فلسفہ میں مضمر ہے،کوئی پورے وثوق واعتماد کے ساتھ  پکار رہا ہے کہ"آؤ اس فلسفہ کو اپناؤ اور من چاہی زندگی گزارو، تم سے کوئی بازپرس نہیں ہوگی"…… تو کسی کو متکبرانہ لب ولہجہ میں دنیا کو للکارتا ہوا دیکھا جا رہا ہے کہ"جدیدیت کے اس پر فریب نعرہ کا مطمح نظر انسانی اقدار کی پامالی اور عدل وانصاف کا خاتمہ ہے، آؤ ہمارے اس قافلہ میں شریک ہو جاؤ"
قارئین:رفتہ رفتہ لوگ اس نظریہ کی بھینٹ چڑھ گئے، اور اسلامی زندگی سے روگردانی عبقریت کی علامت تصور کی جانے لگی، مغرب نے پھر اک بار اپنے نظریہ کی تصدیق وتوثیق کے لئے اسلامی تعلیمات کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے حاملین کو"دہشت گرد" بتا کر غیر شعوری طور پر دنیا کے سامنے اپنی بد بختی کا اعتراف بھی کر لیا۔
دوستو:"مادیت" اور "اسلاموفوبیا" کا یہ مرض یورپ اور مغربی ممالک تک محدود نہیں رہا بلکہ مشرقی  اور  دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں سمیت وطنِ عزیز ہندوستان میں بھی اس کے اثرات پھیلنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ سینکڑوں سالوں کی مسلسل تگ ودو کے بعد آج ہم بھی اسی ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئیہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2017 تک گوکشی کے الزام میں ہجومی تشدد کی نذر ہونے والوں میں تقریبا 52٪ مسلمان تو درندگی کا شکار ہو چکے ہیں، اسی سال دہلی کے فسادات نے وہ ہولناک مناظر بھی دکھائے کہ جس نے چشم ِفلک کو پھر اک بار انسان نما جانوروں کے مشاہدہ پر مجبور کر دیا، حالیہ شہریت قانون کی مخالفت کے جرم میں نہ جانے کتنے سینے سرکاری گولیوں کا نشانہ بن بیٹھے اور ملک کی سالمیت کی خاطر خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیااور بچے ہوئے کچھ مخلص احباب اب بھی سنتِ یوسفی کی یاد تازہ کرتے ہوئے سرکاری مہمان خانہ (قید وبند) میں زندگی گزار رہے ہیں، جس میں کا ایک طبقہ گویا موت و حیات کی  کشمکش میں مبتلا نظر آرہا ہے۔ ابھی کچھ  ہی دنوں قبل "تبلیغی جماعت" کی آڑ میں پورے مسلم معاشرہ  کو جس طرح بدنام کیا گیا،یہ سب کچھ اسی  "اسلاموفوبیا" کی جیتی جاگتی مثالیں تھیں، مزید یہ کہ اس گھناؤنے کھیل میں سبھی "سیکولر" جماعتوں نے اپنی اپنی قسمت آزمائی کی، "حکمراں" طبقہ نے تو بحسن وخوبی کپتانی کے فرائض بھی انجام دئے اور میڈیا بھی اپنے آقاؤں سے داد تحسین وصول کرنے کے چکر میں اپنا اخلاقی فریضہ بھول بیٹھااور یہ سب کچھ آزادی اور مساوات کے علمبرداروں کے اشارہ پر انجام دیا جارہا، مگر افسوس اپنی بدقسمتی کا کیا جائے یا ان درندوں کی بدبختی پر سوگ منایا جائے؟؟ یا پھر ماضی کی اپنی ہی داستانوں میں تسلی کا سامان تلاش کیا جائے؟؟
در اصل آج اسی بات کی ضرورت ہے کہ تاریخ  کی ورق گردانی کرتے ہوئے امتِّ مسلمہ پر  ماضی کی آزمائشوں اور مصیبتوں کا اجمالی جائزہ لیا جائے، صلیبی جنگوں اور تاتاریوں کی سفاکی وبربریت کی یاد تازہ کی جائے۔ 1857 عیسوی کے غدر کے بعد ملک کی صورتحال پر غائرانہ نظر ڈالی جائے، سن 1947 کے بعد ر ونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی داستان سرائی کی جائے  اور ان سب آزمائشوں کے تناظر میں موجودہ صورتحال کے مقابلہ کے لئے کمر ِہمت باندھ لیں، صبر و شکیب کا دامن تھامیں،تو آئیے ہم سب مل کر تاریخ کے مطالعہ کا بیڑا اٹھائیں یا کم ازکم ان اہم واقعات میں عبرت کا سامان تلاش کرنے کی فکر میں منہمک ہو جائیں اور دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی سرخروئی کی فکر میں لگ جائیں، خدا ئے ذو الجلال کے آگے دستِ دعا دراز کریں۔ جاتے جاتے اک شعر سنتے چلیں جو کہ "اسلاموفوبیا" کے شکار مریضوں کے لئے مہلک اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے، اس مختصر سی تحریر کے ذریعہ میں نے  طالبِ علمانہ اسلوب میں تاریخ کے دریجوں میں جھانکنے کی کوشش کی ہے، کچھ بے ترتیب سرخیاں سپردِ قرطاس ہیں جس کے بعد نا امیدیوں کیبادل چھانٹ کر روشن و تابناک مستقبل کی تمنا میں رہنا اور اس کے لیے اپنی بساط بھر کوشش کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔شاعرِ مشرق نے کبھی کہا تھا اور سچ کہا تھا کہ:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے            اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے
تحریر کردہ:  15 شوال 1441 ہجری، مطابق 7/ جون 2020 عیسوی

«
»

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا حکومت ملنے پر لوگوں سے خطاب

منصبِ افتاء مقامِ حزم واحتیاط ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے