5ریاستوں کے اسمبلی نتائج، مودی سرکار کے لئے خطرے کی گھنٹی

2019میں بھگواراج کے خلاف متحد ہونگی اپوزیشن پارٹیاں؟

غوث سیوانی، نئی دہلی

جب ملک کی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی رزلٹ آرہے تھے اورٹی وی چینلوں پر بتایا جارہا تھا کہ حکمران جماعت کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے توسوشل میڈیا پر ایک بڑا طبقہ اظہار مسرت کر رہا تھا۔اس میں مسلمان بھی شامل تھے۔ میراماننا ہے کہ انھیں کانگریس کی جیت کی خوشی کم اور بی جے پی کی ہارکی خوشی زیادہ ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار کو اس ملک نے دیکھا ہے جو بہت اچھا نہیں رہا ہے مگر گزشتہ ساڑھے چار سال جو ملک نے آرایس ایس کے اقتدار کے دیکھے وہ زیادہ برے تھے۔ عوام نے ان خراب دنوں کو اپنے اوپر لادا تھا ’’اچھے دن‘‘ کے جھانسے میں آکر لیکن مکروفریب کا جال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ایک فیس بک یوزر شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی کے مطابق عوام نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ حکومت صرف خوابوں اور خیالوں سے نہیں بلکہ خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے اور خیالوں کو عملی جامہ پہنانے سے چلتی ہے۔جب کہ نوشاد عالم، اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی ہار کو گھمنڈ کی ہار بتاتے ہیں۔ انیس الرحمٰن چشتی کا خیال ہے کہ نتائج نے واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ جھوٹے وعدوں کے لالی پاپ،نوٹ بندی، فرقہ پرستی سے عوام کا بھلا نہیں ہوگا بلکہ زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم بے وقوف نہیں ہیں جو ہمیشہ گمراہ ہوتے رہیں۔ آنکھوں میں دھول ایک بار جھونکی جاسکتی ہے باربار نہیں۔انصار احمد مصباحی بی جے پی کی حالیہ شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں’’بڑ بولا منہ کی کھاتا ہے۔‘‘جب کہ پاکستان کے ایک قلمکار اور کالج میں انگلش کے لکچرر پرویز احمد لکھتے ہیں کہ’’ خریدے ہوئے برقی ذرائع ابلاغ نہیں بلکہ اچھی کارکردگی، عوامی پذیرائی کا سبب ہوتی ہے۔ انشاء اللہ ہمارے خطے میں آنیوالی مثبت تبدیلی کی لہر اک دن اس کی قسمت بدلیگی۔‘‘ عزیرانجم کا کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے عوام ناراض ہیں۔انھوں نے مزید تبصرہ کیا کہ مودی نے نوٹ بندی کی اورجنتا نے ووٹ بندی کردی۔
کانگریس سے بری، بھاجپا حکومت
کانگریس نے ملک پر طویل مدت تک راج کیا ہے اور اس نے بھی بارہا قانون کو بالائے طاق رکھ کر منمانی کی ہے۔ اگر اس نے ساٹھ سال تک دیانتداری کے ساتھ کاروبار حکومت چلایا ہوتا تو شاید عوام، آج ان مسائل سے نبردآزما نہ ہوتے جو اس وقت سامنے ہیں۔ خو دبی جے پی اور شیوسینا جیسی پارٹیوں کا وجود بھی اسی کی دین ہے۔ اپنی ہزار خرابیوں کے باوجود آج کانگریس ، بی جے پی سے بہت بہتر لگنے لگی ہے اور اس کے’’ بھولے بھالے لیڈر‘‘راہل گاندھی ،ملک کے اس وزیراعظم سے اچھے لگنے لگے ہیں جنھیں پانچ سال کا دور اقتدار عوام نے بے حد آرزووں اور تمناؤں کے ساتھ دیا تھا مگر آج ان کے اقتدار کی چولیں ہلتے دیکھ کر وہ خوش نظر آرہے ہیں۔صحافی محمد شارب ضیاء رحمانی کا کہنا ہے کہ عوام نے پیغام دیدیاہے کہ فرقہ پرستی نہیں چلے گی، اصل ایشوز پر کام کیجیے۔ان کاسوال ہے کہ اسٹیٹ اورمرکزدونوں میں ایک پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجودمسائل جوں کے توں کیوں رہے، کب تک جملے بازی ہوتی رہے گی؟ لوگ وعدے، الزام اورفرضی دعووں سے اکتا چکے ہیں۔ان کے مطابق عوام نے کانگریس کوبھی پیغام دیدیا ہے کہ مہاگٹھبندھن ضروری ہے۔اگراتحاد ہوتاتو مقابلہ یک طرفہ ہوتا، راجستھان اورمدھیہ پردیش میں بھی دوتہائی سے جیت ہوتی۔ ان کے مطابق اس کا بڑا اثر لوک سبھا الیکشن پر پڑنے والا ہے۔ اگر یوپی میں مہاگٹھ بندھن ہوجاتاہے تو بی جے پی کو نقصان ڈیڑھ سو سیٹوں تک کا ہوسکتاہے۔فیس بک یوزر محمد ظفیر عالم نے بی جے پی کی ہار پر تبصرہ کیا کہ بی جے پی کو عوام نے پیغام دیا ہے کہ یہ ملک مذہبی جنونیت مندر،گائے،لوجہاد پر نہیں چلنے والا ہے بلکہ یہ قانون کے مطابق ہی چلے گا۔عارف شہزاد کا خیال ہے کہ عوام کا پیغام ہے کہ وہ ہندوتوا نہیں چاہتے ترقی چاہتے ہیں۔ 
اپوزیشن اتحاد کی ضرورت
گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں کچھ خاص وجوہات کے سبب بی جے پی کو بڑی جیت ملی تھی۔ حالانکہ وہ اس جیت کو ہضم نہیں کرپائی اور اس کی حکومت نے عوام کے اصل مسائل کو سلجھانے کے بجائے مفروضہ ایشوز میں الجھانے کا کام کیا۔ بی جے پی کے دور اقتدار سے عوام کو جو مایوسی ہاتھ لگی ہے سو اپنی جگہ مگر ان سیاسی پارٹیوں کو بھی بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے جن کی دکانوں پر تالے لگنے کی نوبت آگئی ہے۔ اس زمرے میں شامل ہیں کانگریس، سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، راشٹریہ جنتادل ، جنتادل( سیکولر) ، عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس، کمیونسٹ پارٹیاں وغیرہ۔ یہی سبب ہے کہ آج تمام پارٹیاں سیکولرازم کے نام پر متحدہونے کو بے قرار نظر آرہی ہیں۔ انھیں احساس ہے کہ اگر نریندر مودی دوبارہ اقتدار میں آگئے تو تمام سیاسی سورما جیل میں ہونگے اور جمہوریت کا نمائشی شو بھی بند ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں جمہوریت کی جڑیں کمزور ہوئی ہیں۔ جس طرح سے میڈیا نے حکومت کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے بجائے، اس کی پشت پناہی کا کام کیا ہے ۔ اسے دیکھتے ہوئے ،اس بات کا پورا امکان ہے کہ اگر بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا تو بھگواپریوار کے ساتھ مل کر ملک کے صنعتکار کوئی بڑا کھیل کرسکتے ہیں۔گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے سرمائی سشن سے قبل اپوزیشن پارٹیوں نے ایک مٹینگ بھی کی اور انھوں نے حکومت کو گھیرنے کے لئے لائحہ عمل بھی بنانے کی کوشش کی۔ملک کے عوام کا ایک بڑاطبقہ چاہتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد قائم ہو اور مودی سرکار کی گھیرابندی کی جائے۔ صحافی ومصنف سید احمد قادری کے مطابق ملک میں بد امنی ، انتشار، عدم رواداری، فرقہ واریت اور آئین کی پامالی کے خلاف اتحاد و اتفاق بہت ضروری ہے۔ ملک کی سالمیت کے لئے ہر طرح کی قربانی ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ اپنی صفوں میں شامل رنگے سیاروں کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک فیس بک یوزرانیس الرحمٰن چشتی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد اس لیے ضروری ہے کہ حکمراں پارٹی کی پر تشدد پوزیشن خاک میں مل جائے اور سیکولر ووٹوں کی تقسیم نہ ہو ۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر دیکھا یہ گیا ہے کہ ستر فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیوں کوانتشار کے سبب شکست ملی اور تیس فیصد ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی نے اپنی حکومت بنالی۔ اس کی اصل وجہ سیکولر ووٹوں کا منقسم ہونا ہے۔
سیکولرازم کے تحفظ کے لئے اتحاد ضروری ہے
کیا اپوزیشن اتحاد بھارت کے سیکولرزم کو بچا سکتا ہے؟اس سوال کو جب سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا گیا تو لوگوں کے جواب الگ الگ طرح کے تھے۔بیشتر مسلمانوں کو شک تھا کہ سیکولرازم محض مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کا ایک بہانہ بھر ہے۔ ہمارے سوال پر محمد عظمت اللہ ندوی کا جواب تھا کہ ’’ہندوستان میں سیکولرازم صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔بقیہ قوموں کو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بی جے پی آئے یا کانگریس۔سب برابر ہیں۔‘‘ جب کہ احمد رضا کا کہنا ہے کہ ملک کو بچانے کے لئے ملک کے سیکولرزم کو بچانا بہت ضروری ہے۔ وہیں زکی محمد طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ سیکولرزم کس چڑیا کا نام ہے؟ حالانکہ پیشے سے انجینئر وارث حسین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد اُس کی مجبوری ہے۔ اس سے گریز اُس کے لئے فنا کا پروانہ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مبینہ سیکولر پارٹیاں ،سیکولرازم کو بچانے کے لئے متحد نہیں ہورہی ہیں بلکہ خود کو بچانے کے لئے ایکتا کا مظاہرہ کرنے پر مجبور ہیں۔محسن علی کا بھی ماننا ہے کہ اتحاد کے علاوہ سیکولر پارٹیوں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہیں محمد عالم الفرقانی چاہتے ہیں کہ ملک میں جو پارٹیاں بی جے پی کے خلاف متحد ہورہی ہیں، ان میں مسلم پارٹیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ان کے خیال سے ایس ڈی پی آئی، یوڈی ایف،مجلس اتحاد المسلمین وغیرہ کو اتحاد میں شامل کئے بغیراس کا کوئی بڑا مطلب نہیں ہے اور مسلمانوں کو اس سے زیادہ فائدہ نہیں ملے گا۔کلکتہ کے فاروق خان مانتے ہیں کہ ہر صورت میں سیکولر پارٹیوں کو ساتھ آنا چاہیے، اتحاد کا بس یہی ایک راستہ ہے جو ملک کو بچا سکتا ہے۔ آفتاب عالم کہتے ہیں کہ سیکولر ازم کو بچانے کا یہی ایک راستہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں بی جے پی کے خلاف اتحاد قائم کریں۔ حالانکہ سید اقبال احمد کا ماننا ہے کہ کانگریس کی نیت درست نہیں ہے اور ایسے میں سیکولرازم کو بچانا مشکل ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر کانگریس کی نیت میں کھوٹ نہ ہوتو سیکولرازم کو بچایا جاسکتا ہے۔
اتحاد کے راستے پر اپوزیشن
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے خراب مظاہرے کے بعد ایک طبقے کو امید ہے کہ ملک بھر میں بھاجپا مخالف پارٹیوں کا اتحاد ہوگا اور کامیاب ہوگا۔ اس طرح ملک میں سیکولرازم محفوظ رہے گااور اس ملک کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے موجودہ حالات سے اگرچہ اس دیش کا ہرطبقہ پریشان ہے مگر سب سے زیادہ پریشانی، مسلمانوں کو ہے جو حکومت اور حکومت کے جرائم پر پردہ ڈالنے والے میڈیا کے نشانے پر سب سے زیادہ ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت سے بہتر تو کانگریس کا ہی دور تھا جب دنگے ہوتے تھے اور دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھوسا جاتا تھا۔ بہرحال موجودہ وقت میں بھاجپا مخالف اتحاد کا تصور زوروں پر ہے۔ اترپردیش کی دومخالف پارٹیاں، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ایک ساتھ آچکی ہیں۔ اب خبر ہے کہ اس اتحاد میں کانگریس اور چودھری اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل بھی شامل ہوگئی ہیں۔ یہ اتحاد، اگرواقعی قائم ہوا تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ بھاجپا کو ناکوں چنے چبانے پڑیں اور اترپردیش میں اس کے لئے کھاتا کھلنا مشکل ہوجائے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان قومی سطح پر مفاہمت کی تیاریاں چل رہی ہیں۔بہار میں بھی بھاجپا مخالف پارٹیوں کے اتحادکی تیاری ہے، وہیں دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے بیچ سیٹوں کی تقسیم کی بات چل رہی ہے نیز آسام میں کانگریس اور یو ڈی ایف کے بیچ سمجھوتے کی تیاری ہے۔ کرناٹک میں کانگریس اور جنتادل (سیکولر) پہلے ہی ساتھ آچکے ہیں۔
اتحاد یا مینڈک تولنے کی کوشش؟
موجودہ حالات میں عام لوگوں کو لگتا ہے کہ بھاجپا مخالف سیکولر پارٹیوں کا اتحاد، ملک کو بچانے کے لئے نہیں بلکہ خود کو بچانے کے لئے ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کے مفادات، ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور یہ صرف اس لئے، ایک ساتھ آرہی ہیں کیونکہ نریندر مودی نے سب کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ ویسے انھیں ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش مینڈک تولنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں، کہ دو کو جمع کروتب تک چار اچھل کر باہر نکل جاتے ہیں۔ ایک طرف تو بھاجپا مخالف پارٹیوں کے بیچ مفاہمت کی کوشش چل رہی ہے ، وہیں دوسری طرف ان کے بکھراؤ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک فیس بک یوزر علی منظور کا ماننا ہے کہ نہ تو مسلمان متحد ہوسکتے ہیں اور نہ سیکولر پارٹیاں متحد ہوسکتی ہیں،سب کے مفادات الگ الگ ہیں۔ پہلے ہم خود کو متحد کریں پھر دوسروں سے اتحاد کی امید کریں۔بہرحال ایک طرف جہاں یہ سوال ہے کہ عام انتخابات میں ،بھاجپا مخالف پارٹیاں، کس قدر متحد ہونگی؟ وہیں دوسرا اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر سیکولرازم اور مودی مخالفت کے نام پر ان پارٹیوں نے جیت حاصل کربھی لی تو الیکشن کے بعد کیا ہوگا؟ کیا یہ پارٹیاں الیکشن کے بعد متحد رہینگی؟ تب اگر کچھ پارٹیاں پالا بدل کر بی جے پی کی سرکار بنوانے چلی گئیں تو کیا ہوگا ؟

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:12ڈسمبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

تلنگانہ میں ٹی آر ایس کامیاب مہاکوٹمی ناکام ۔ کیوں۔؟

کیا وزیراعظم نے بھانپ لی ہے شکست؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے