قائد قوم سید خلیل الرحمٰن صاحب کی رحلت پر تاثرات
ارشد حسن کاڑلی
دمام سعودی عربیہ
جو افراد میرے ہم عمر و ہم عصر ہیں ان میں سے بہت سارے احباب نے انجمن کی جشن طلائی (گولڈن جوبلی) کی دبیز کاغذ پر طبع شدہ ضخیم سوینیر کو ضرور دیکھا ہوگا۔ لیکن اس میگزین میں چھپا ایک خوبصورت مضمون شاید ہی کسی کو یاد ہو۔ یہ مضمون اس دور کے ایک ابھرتے ستارے سید خلیل الرحمان المعروف خلیل بھاو کی کاوش تھی جس میں انہوں نے ہمارے ساحلی پٹی پر رہنے والے افراد کو مقامی طور پر میسر وسائل کے استعمال کرتے ہوئے صنعت و تجارت سے معیشت کے استحکام پر ابھارا تھا۔ بلکہ اس سے مقامی طور پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی رائے دی تھی۔
اس پرمغز مضمون بعنوان ECONOMIC POTENTIALITIES OF BHATKAL REGION میں اس نوجوان قلم نے بھٹکل و اطراف کے علاقہ میں موجود معاشی امکانات کا جائزہ لیا تھا۔ یہاں سعودی عربیہ میں گولڈن جوبلی سوینیر کہاں سے ملتا۔ محترم دوست ناصر اکرمی صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مکتبہ حسن البنا میں موجود کاپی سے مضمون ارسال کیا۔
افسوس کہ گولڈن جوبلی تقریبات کے بعد مذید پچاس سال گزر گئے مگر خلیل بھاو کی وہ تجاویز صرف اس کتاب کی زینت بن کر رہ گئی۔ ہم اہلیان بھٹکل کو کبھی ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کا خیال تک نہیں آیا۔
اب ذرا پہلی بین الجماعتی کانفرنس بمقام زھرہ گارڈن کالیکٹ کا ایک منظر پیش کرتے ہیں۔ اس کانفرنس میں قومی اخبار نقش نوائط کے ایڈیٹر عبد الرحیم ارشاد صاحب اخبار کے تازہ شمارہ کے ساتھ حاضر ہیں۔
اس شمارے کے سرورق پر بڑے حروف میں بعض عنوانات ہیں جس میں شہر بھٹکل میں وسائل رہنے کے باوجود مسائل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
میرا اور ارشاد صاحب کا کمرہ مشترک ہے جو زہرہ گارڈن کے بالکل سامنے ارشاد صاحب کی ہمشیرہ کے دولت خانہ دارالامان میں ہے۔ رات کو سونے سے پہلے ارشاد صاحب مرحوم نقش نوائط کے شمارہ کی سرخیوں پر خلیل بھاو کا تبصرہ سنا رہے۔
ارشد، مجھ سے خلیل نے کہا کہ ارشاد، اگر تمہارے قلم سے نکلی ہوئی صرف نقش نوائط کی ان سرخیوں پر اگر بات کرنے بیٹھیں تو یہ کانفرنس کے دو تین دن ناکافی ہیں۔ اللہ کرے ہم ان مسائل میں چند ایک حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں
اگر آپ خلیل بھاو کی عوامی زندگی (پبلک لائف) کا جائزہ لیں تو آپ کو تعلیمی اداروں میں، جاب مارکیٹ میں، میڈیا میں، صحت عامہ میں اور نہ جانے کتنی جگہ ان کی خدمات کی چھاپ نظر آئے گی۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ مرحوم تعلیم، تربیت اور تدریب کے ذریعے مسلمانان ھند کے معاشی استحکام کے لئے کوشاں تھے۔ انجمن ویمنز کالج پرشکوہ کیمپس، شمس کا باوقار کیمپس، ائیڈیل کمٹہ، سرسی اور دیگر علاقوں کے تعلیمی ادارے اسی عزم کی داستان کہتے ہیں۔ ان عمارتوں کی ایک ایک اینٹ خلیل بھاؤ کی مرہون منت ہے۔
واضح رہے کہ خلیل صاحب کی دست فیاضی سے انجمن کے تحت قائم ویمنز کالج کیمپس کسی خاص طبقہ یا مذہب کے لئے مخصوص نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے دروازے ہر طبقہ اور مذہب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ اس کیمپس کے کالجوں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر دختران وطن بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔
یہ تو ان کی اداروں کے لئے خدمات کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ انفرادی طور مستحق طلبہ کو ان کی مالی معاونت اور اس کے طریقۂ کار کو سنیں تو معلوم ہو گا کہ آج کل ایسی مثالیں ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایک لڑکے کا انجینئرنگ کالج میں داخلہ ہونا تھا۔ شہر کے ایک معروف رئیس نے رشتہِ دار ہونے کے ناطے لڑکے کے والد سے کہا کہ انجمن آفس جاؤ اور بتاو کہ آدھی فیس کی ضمانت اس نے لی ہے۔ جب وہ شخص بقیہ آدھی رقم لے کر انجمن آفس پہنچے اور انہیں اس رئیس کے تعاون کے بارے میں مطلع کیا تو اس وقت کے سکریٹری صاحب نے اپنا ریکارڈ کھولا تو معلوم ہوا کہ خلیل بھاو نے اس لڑکے کی پوری فیس ادا کر کے رسید بھی کاٹ کر رکھی ہوی ہے۔
ہمیشہ میری یہ خواہش رہی کہ عید کی مبارکباد دینے میں ان سے سبقت لے جاؤں۔ مگر ہمیشہ انہی کا مبارکبادی پیغام پہلے آتا۔ فکر و خبر میں میرا کوئی مضمون چھپتا تو اکثر ان کا ذاتی کال آتا۔ اگر میرے مضمون میں کچھ کمی محسوس ہوتی تو وہ واحد شخص تھے جو بے لاگ و لپیٹ اپنا مافی الضمیر ادا کرتے۔
پت جھڑ کے موسم میں ویسے بھی ایک اداسی کا سماں سا بندہ جاتا ہے۔ اور اس سال نومبر میں ہمارے لئے خلیل بھاو کے انتقال ایک تناور درخت گرنے کے مترادف ہے۔ پورے ماحول میں اداسی چھانا ایک فطری بات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر ہمارے علاقے کے سبھی مسلمان مستحق تعزیت ہیں ؛ اس لیے کہ یہ ہم سب کے لیے مشترک حادثہ ہے، بلاشبہ ایس۔ایم۔سید خلیل الرحمٰن صاحب مرحوم قوم و ملت کی مسند قیادت کی آبرو اور اپنے علاقے کے حقیقی سالار تھے، انھوں نے تقریباً نصف صدی سے زائد عرصہ قوم کی خدمات انجام دیں اور مقبولیت کا اعلیٰ معیار حاصل کیا۔ ان کا دست سخاوت ان کے خاندان سادات کے اجداد سے منسوب واقعات کی یاد تازہ کرتا تھا۔ اسی کے ساتھ اللہ رب العزت کی توفیق سے انھوں نے اشاعت دین اور میڈیا و اخبارات میں قوم کی نمائندگی بڑھانے کے لئے بلند پایہ خدمات بھی انجام دیا ہے۔
ہم یہ جو چند کلمات لکھ رہے تاکہ انے والی نسل اپنے اسلاف کی قربانیوں کو بھلا نہ دے۔ بقول شاعر
عمر کلیوں کی کتنی جو بتلا سکیں کس کے خون جگر سے ہے حسن چمن؟
خاک گلشن سے پوچھو بہاروں میں ہے کس کے خوں سے یہ گلکاریاں دوستو
ہمارے علاقے کے ملی اداروں کو بشمول سید خلیل الرحمٰن صاحب ہمارے اکابرینِ نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ اللہ تعالی ہمارے تمام مللی اداروں کا حامی و مددگار ہو۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ تمام مخلص قائدین کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا ہو۔ آمین