محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل
زنجبار میں قیام کے دوران میں یہاں کے بعض مکاتب اور مساجد کی زیارت اور جائزے کا موقع بھی ملا۔ زنجبار سے متصل جزیرہ پیمبا کا سفر بھی اس بار ارادے میں شامل تھا، مگر وہاں چوں کہ ابھی تک کام کی کوئی شکل نہیں بن پائی ہے اس لیے فی الحال اس کو اگلے سفر کے لیے ملتوی کیا گیا۔ البتہ اس بار بھی شیخ فرید سے ملاقات رہی، اگرچہ کہ چلتے چلتے ہوئی مگر خوب رہی، شیخ فرید آزاد ویل کی شاخ میں مدرس ہیں، اردو جانتے ہیں اور اچھی بولتے ہیں، میاز فورم کے نصاب کا بھی ترجمہ کیا ہے، مسجد کی امامت کے ساتھ درس وتدریس سے بھی وابستہ ہیں اور علمی وقرآنی دروس کے حلقوں سے بھی۔ ڈاکٹر صاحب کی کئی کتابوں کا شیخ نے سواحلی میں ترجمہ کیا ہے، گزشتہ سفر میں وہ کتابیں ان کے حوالے کی گئی تھیں اور اب ماشاء اللہ وہ نظر ثانی کے بعد مکمل ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں، اللہ تعالیٰ اس ملاقات کو مفید بنائے اور اس کے مثبت اثرات پیدا فرمائے۔زنجبار سے فارغ ہوکر ہمیں دار السلام پہنچنا تھا، مگر اس بار ہوائی سفر کے بجائے سمندری سفر کی تجویز ہوئی جس کے لیے دو گھنٹے اور چالیس ڈالر درکار تھے، چالیس ڈالر کچھ کم تو نہیں ہوئے اور اتنے میں ہوائی سفر بھی ممکن اور اس میں وقت کی بچت بھی، کیوں کہ اس کے لیے دس سے پندرہ منٹ درکار، ادھر جہاز نے اڑان بھری اور ادھر دار السلام آگیا، مگر اس بار سمندری سفر کے تجربے کی خواہش دل میں ابھری سو اس کی تکمیل کی ٹھانی، سمندر کی موجوں کو کب گوارا ہے کہ کسی کو بہ آسانی اپنے دوش پر چلنے دیں اور وہ بھی چڑھائی پر، اعظم میرین کا عالی شان جہاز بھی مانا نہیں، بپھرتی ہوئی موجوں کا سینہ چیر کر آگے بڑھتا رہا، پھر کیا تھا! ہچکولے لگتے رہے، لگا کریں، منزل پر پہنچ کر ہی تو دم لینا ہے، پائے ثبات میں جنبش منزل سے محروم کردیتی ہے۔ کسی کسی کو متلی بھی آئی مگر ہمیں تو بس سر درد کی سوغات ملی اور بزنس کلاس کے باوجود (کہ ایکانومی اور بزنس میں پانچ ڈالر کے فرق کی وجہ سے بزنس کو ترجیح دی گئی تھی) گرمی کی شدت اس پر مستزاد۔ کسی لمحے کوئی ہوا کا جھونکا چھوکر نہ گزرا، شاید سمندر کے درمیان گرمی ایسے ہی عروج پر ہوتی ہو یا پھر دل کی دھڑکن سر درد کے ساتھ گرمی کی نوازش بھی کرتی ہو۔دار السلام میں ہمارے منتظر تھے عم محترم مولانا عبد العزیز صاحب کے صاحب زادے عمر خلیفہ، جو مڈگاسکر، ائیوری کوسٹ، روانڈا کے بعد اب دار السلام کو اپنا مستقر بنائے ہوئے ہیں، عمر بھائی نے یہاں قیام کا نظم بھی کیا طعام کا بھی، ان کے دوست جیسلمیر راجستھان کے بریم صاحب بھی دیدہ ودل فرش راہ کیے ہوئے تھے، ان سے ملاقات اور ان کی ضیافت خاص طور پر “مشکاکی” کے لیے یادگار رہے گی۔دار السلام میں ایک اہم ملاقات mbgala میں مقیم مولانا ارشد قاسمی کی رہی، جن کے زیر نگرانی ساڑھے سات سو مکاتب میں انتیس ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں، وقت کی تنگی کی وجہ سے مولانا کے یہاں جاکر تو ہم نظام نہ دیکھ سکے مگر وہ خود تشریف لائے، ان سے تبادلۂ خیال ہوا، کام کے حوالے سے گفتگو ہوئی، وہ دس بارہ سال سے یہاں دینی مکاتب کے قیام کی محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی قبول فرمائے۔مغرب کی نماز یہاں کی ایک عالی شان مسجد میں پڑھی، امام صاحب کی قرات اور نماز سے قبل اور نماز کے بعد مخصوص انداز میں پڑھی جانے والی چیزوں کو دیکھ کر پرانا بھٹکل یاد آیا۔نماز کے بعد کچھ گجرات کے حاجی یعقوب صاحب سے ملاقات ہوئی، ان سے کوئی شناسائی نہیں تھی، مگر غریب الدیار مسافروں کو دیکھ کر انھوں نے خود ہی خیریت دریافت کی۔ دار السلام اور عمان میں ان کی وسیع پیمانے پر تجارت ہے، اہل علم سے قربت ہے، دنیا بھر کے نامور علماء وصلحاء ان کے یہاں تشریف لاچکے ہیں، ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جان کر بہت خوش ہوئے، بہ اصرار کھانے پر بلایا، ہم نے معذرت کی تو چائے پلائی اور اگلی بار کا وعدہ لیا۔دار السلام بہت بڑا شہر ہے، تجارتی سرگرمیوں کو دیکھ کر اور یہاں کے رہن سہن اور طرز معاشرت کو دیکھ کر بھی اس کو یہاں کا ممبئی کہا جاسکتا ہے، کام کا ایک وسیع میدان ہے، ایک روز میں اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، اطراف واکناف میں اہل باطل کی مسلسل کوششیں بھی جاری ہیں، اہل حق بھی اپنی بساط بھر میدان عمل میں سرگرم ہیں۔اگلے سفر میں اس کے لیے مستقل ترتیب بنانے کا عزم لے کر ہم یہاں سے واپسی کے لیے پا بہ رکاب ہوئے اور قطر ایئرویز کے ذریعے براہ دوحہ ساڑھے پانچ اور پھر ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم ممبئی پہنچے اور ٹرین سے بھٹکل تک کا سفر طے ہوا اور یہ داستان ختم ہونے کو آئی، جس کو پڑھنے کی آپ حضرات نے زحمت اٹھائی، شکریہ آپ کی دل چسپی کا، شکریہ آپ کی محبتوں کا، اور شکریہ اس سفر میں ساتھ دینے والے تمام احباب خصوصا مولانا خلیل لمباڈا اور حضرت مولانا موسی اکودی صاحبان کا جو تقریبا سولہ دن سائے کی طرح ساتھ رہے اور ہر طرح کی راحت رسانی کی فکر کرتے رہے، اللہ تعالی سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ فی الحال اتنا ہی، پھر آئندہ کسی اور موقع سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے، تب تک کے لیے اجازت دیجیے۔ مع السلام۔
(ضمیمہ سفرنامہ جنوبی افریقہ 17 ۔ آخری قسط)(سخنؔ حجازی۔ منگلا لکشادیپ ایکسپریس۔ چوبیس اکتوبر۔ 2024)۔