ہندوتوابھیڑ کے تشدد کا نشانہ بنے مسلم چوڑی فروش کو تین سال بعد ملا انصاف

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے اندور ضلع میں اگست 2021 میں ہندو خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں بھیڑ کے ہاتھوں مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بننے والے تسلیم علی کو ضلع عدالت نے سوموار کو اس معاملے میں بری کر دیا، جس کے لیے انہوں نے 107 دن جیل میں گزارے ۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بری ہونے کے بعد علی نے کہا، ‘میں خوش بھی ہوں اور اداس بھی – یہ میرے لیے ایک تلخ تجربہ تھا۔ میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ کھڑے رہے،ان کا بھی  جنہوں نے میرے خلاف ایف آئی آر درج کروائی اور مجھے مارا۔ مجھے مذہب اور میرے نام کی وجہ سے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا۔’

بتادیں کہ اتر پردیش کے ہردوئی کے رہنے والے چوڑی فروش تسلیم علی (25 سال) کی گرفتاری سے قبل سماجی اور سیاسی گلیاروں میں اس ویڈیو کو لےکر خوب ہنگامہ ہوا تھا، جس میں اندور کے گووند نگر میں 22 اگست کو جمع  بھیڑ میں شامل لوگ چوڑی فروش کو بری طرح پیٹتے دکھائی دے رہے ہیں، جبکہ وہ ان سے چھوڑ دینے کی منتیں کر رہے تھے۔

وائرل ویڈیو میں علی کو کچھ لوگ مار رہے تھے اور ان کے ساتھ گالی گلوج  کر رہے تھے۔ ان لوگوں  نے علی پر رکشا بندھن کے موقع پر چوڑیاں بیچنے کے بہانے خواتین کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ویڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا تھاکہ لوگ علی کو ‘ہندو علاقے’ میں دوبارہ قدم نہ رکھنے کی وارننگ دے رہے تھے۔

واقعے کے بعد جب علی نے اپنے حملہ آوروں کے خلاف شکایت درج کرائی تو پولیس نے اس پر مقدمہ درج کیا اور 13 سالہ لڑکی کی شکایت کی بنیاد پر انہیں107 دن جیل میں گزارنے پڑے ۔ اس پر پاکسو ایکٹ اور آئی پی سی کی دفعات کے تحت الزام عائد کیے گئے تھے۔

مارپیٹ کے بعد علی نے بان گنگا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی ۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ بھیڑ میں شامل لوگوں نے مبینہ طور پر اس کا نام پوچھا اور ان کےجواب دینے کے بعد انہیں مارنا شروع کردیا۔ لوگوں نے ان کے لیے فرقہ وارانہ لفظوں  کا استعمال کیا اور 10000 روپے نقد، موبائل فون، آدھار کارڈ اور دیگر دستاویزات کے ساتھ ساتھ تقریباً 25000 روپے کی چوڑیاں بھی چھین لیں۔

اس کی ایف آئی آر کی بنیاد پر چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن اس کے فوراً بعد علی کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا۔

اخبار کے مطابق، اب علی نے کہا کہ وہ امن چاہتے ہیں اور اس واقعے کو پیچھے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اندور شہر سے کوئی نفرت نہیں ہے جہاں وہ کالونی  کالونی  گھوم کر اور چوڑیاں بیچ کر اپنی روزی کماتے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘اندور کے تمام باشندے میرے بھائی بہن ہیں۔’

جیل میں 107 دن گزارنے کے حوالے سے انہوں نےکہا، ‘شروع میں مجھے بہت جدوجہد کرنی پڑی، میں ڈرا ہوا تھا۔ پھر مجھے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ اکیلے پن سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی، اور جیلر اور پولیس نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ مجھے ہراساں نہیں کیا گیا۔ مجھے آئین اور عدلیہ پر یقین تھا۔’

دسمبر 2021 میں ضمانت ملنے کے بعد علی ایک بار پھر اندور کی سڑکوں پر چوڑیاں بیچنے آئے ہیں۔ انہوںنے کہا، ‘میں پریشان تھا، لیکن مجھے چھ بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ میرے دادا اور والد بھی یہی کیا کرتے تھے۔ میں یوپی سے پنجاب اور اندور تک کالونیوں، میلوں اور دیگر مقامات پر جاتا ہوں۔ میں اندور واپس آتا رہوں گا۔’

علی کے وکیل شیخ علیم نے کہا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ ایڈیشنل سیشن جج وی رشمی بالٹر نے انہیں بری کر دیا کیونکہ تمام گواہ بشمول نابالغ لڑکی جس نے الزام لگایا تھا،وہ اپنے بیان سے مکر گئے۔

انہوں نے کہا، ‘آدھار کارڈ پر گولو  نام لکھے ہونے کی بنیاد پر یہ الزام کہ  اس نے اپنی شناخت بدل کر ہندو نام رکھ لیا تھا، عدالت میں غلط ثابت ہوا۔ علی کے گاؤں کا نام گولو ہے اور اس نے بعد میں اسے آدھار کارڈ میں درست کر ا لیا، لیکن جس دن ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اس دن اس کے پاس پرانا شناختی کارڈ تھا۔ دو گاؤں کے سربراہان نے بھی اس حوالے سے گواہی دی۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے حملہ آوروں کے خلاف مقدمہ چلائیں گے، علی نے کہا، ‘انہوں نے مجھ سے معافی مانگ لی ہے۔ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میرے دل میں کسی کے خلاف کچھ نہیں ہے۔’

الزامات ثابت نہیں ہوئے

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، منگل کو دستیاب کرائے گئے عدالتی حکم کے مطابق، جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پاکسو) ایکٹ کے تحت معاملوں کی خصوصی جج رشمی والٹر نے 27 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ استغاثہ تسلیم علی کے خلاف الزامات ۔ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

فیصلے کے مطابق، عدالت نے کہا کہ تسلیم علی کے خلاف  ہراساں کرنے، دھمکی دینے اور جعلسازی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ لڑکی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ علی اس کے پاس چوڑیاں بیچنے آیا تھا اور اس نے اپنا ہندو نام گولوابن موہن سنگھ بتایا تھا۔

آرڈر میں کہا گیا، ‘اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ملزم نے دھوکہ دہی کی نیت سے آدھار کارڈ بنایا اور یہ جاننے کے باوجود کہ آدھار کارڈ جعلی ہے، اس نے اسے اصلی کے طور پر استعمال کیا۔’

«
»

ای وی ایم سے جمہوریت کا قتل ہوا ہے ، شیوسینا ادھوٹھاکرے ارکان اسمبلی کا حلف لینے سے انکار

ننھا مقرراور ننھی مقررہ سیرت مسابقہ: دفتر فکروخبر میں انعامات کی تقریب، نئی نسل کی دینی تربیت پر توجہ وقت کی اہم ضرورت، علماء و ذمہ داران کا اظہارِخیال