گاندربل زیارت کیس: ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کے حق میں سنایا فیصلہ، کہا مساجد و درگاہیں خود بخود وقف

ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل میں واقع زیارت شریف سید خضر صاحب کی تحویل کے معاملے پر وقف بورڈ کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ’’زیارات جیسی عبادت گاہیں اپنی نوعیت اور استعمال کے سبب خود بہ خود وقف تصور کی جاتی ہیں، جن کے لیے کسی باضابطہ اعلان یا دستاویز کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘

جسٹس سنجیو کمار اور جسٹس سنجے پریہار پر مشتمل دو رکنی بنچ نے حاجی عبدالاحد آخون اور مقامی انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے دائر اپیل کو خارج کر دیا اور سنگل بنچ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس کے تحت وقف بورڈ کو زیارت کے انتظام کا اختیار دیا گیا تھا۔

درخواست گزار آخون نے وکیل جہانگیر اقبال گنائی کی معرفت سے دعویٰ کیا کہ انہوں نے زیارت سمیت تین مزارات کو ذاتی زمین پر خود تعمیر کیا اور ان کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک کمیٹی بھی بنائی۔ آخون کا موقف تھا کہ زیارت کی زمین، جس کا خسرہ نمبر 323 ہے، ان کے اہل خانہ کی ملکیت ہے، اس لیے وقف بورڈ کو کوئی قانونی اختیار نہیں کہ بغیر عمل قانون اس اراضی کی دیکھ بھال کرے۔

گاندربل کی زیارت پر ہائی کورٹ کا فیصلہ وقف بورڈ کے حق میں

تاہم وقف بورڈ نے موقف اختیار کیا کہ جس زیارت کی بات ہو رہی ہے وہ خسرہ نمبر 322 پر واقع ہے اور یہ زمین سنہ 1985 سے وقف جائیداد کے طور پر نوٹیفائی ہے۔ عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ چونکہ خسرہ نمبر 323 کی زمین وقف قرار نہیں دی گئی ہے، اس لیے درخواست گزار کا دعویٰ قانونی جواز سے خالی ہے۔

فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ جموں و کشمیر وقف ایکٹ 1978 کے تحت مساجد، مزارات، قبرستان اور دیگر عبادت گاہیں اپنے استعمال کی بنیاد پر وقف تصور ہوتی ہیں، اور ان کے لیے کسی رسمی نوٹیفکیشن کی ضرورت نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا: ’’ایسی جائیدادیں جو مسجد، درگاہ یا زیارت کے طور پر استعمال ہو رہی ہوں، وہ خودبخود وقف ہیں۔‘‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر درخواست گزار سمجھتے ہیں کہ زیارت ان کی زمین پر واقع ہے، تو وہ اس بارے میں ریونیو حکام سے رجوع کریں یا متعلقہ سول کورٹ میں دعویٰ دائر کریں۔ عدالت نے مزید کہا: ’’اپیل کنندگان اپنی اراضی کی حدبندی اور حق ملکیت کے تحفظ کے لیے متعلقہ قانونی فورمز سے رجوع کرنے کے مکمل مجاز ہیں۔‘‘

عدالت نے وقف بورڈ کے اقدام میں کسی بھی قانونی خامی کو مسترد کرتے ہوئے واضح کہا کہ درخواست گزار بورڈ کو انتظام سے نہیں روک سکتے کیونکہ زمین جس پر ان کا دعویٰ ہے، وہ وقف شدہ زمین میں شامل ہی نہیں۔

آسام: گولپاڑہ میں آبستان پر آباد ۶۶۰؍ خاندانوں کے گھر وں کا انہدام

اسرائیل-ایران جنگ: یوپی کے مزدور اسرائیل میں خوف کے سایہ میں!