نئی دہلی :سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کے رودر پور میں ایک مسلم نرس کی عصمت دری اور بہیمانہ قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے دیگر متعلقہ ریاستوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے لاپتہ لڑکیوں اور کام کرنے والی خواتین کی شکایات کی تحقیقات کے لیے رہنما خطوط کا مطالبہ کیا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ کے سامنے آج اس کیس کی سماعت ہوئی، جس کے دوران سینئر وکیل نتیا راما کرشنن نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں پولیس کی اب تک کی تفتیش غیر تسلی بخش رہی ہے۔ درحقیقت 30 جولائی کی شام کو تسلیم جہاں نامی نرس رودر پور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں اپنی ڈیوٹی سے اتراکھنڈ سرحد یعنی اتر پردیش کے بلاس پور میں وسندھرا کالونی کے قریب اپنے گھر کی طرف جارہی تھی۔ اسی دوران وہ اچانک غائب ہو گئی۔ 31 جولائی کو نرس کی بہن نے رودر پور کوتوالی پولیس میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ لیکن پولیس نے کوئی خاص کارروائی نہیں کی ۔ 8 اگست کو بلاس پور تھانہ علاقے کے وسندھرا روڈ پر نرس کی لاش سڑی گلی حالت میں ملی تھی۔ جس کے بعد رودر پور تھانے نے 14 اگست کو کیس کا انکشاف کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جس کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔
واضح رہےے کہ یہ عرضی جمعیة علمائے ہند کی جانب سے متاثرہ کی بہن اور بھائی کی ایما پر داخل کی گئی ہے ۔آج کی عدالتی پیشرفت پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیة علماءہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے تسلیم جہاں معاملے میں سپریم کورٹ کے اتراکھنڈ حکومت کے نوٹس کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ حکومت کا کام انصاف کی فراہمی کرنا ہوتا ہے لیکن اب عدالتیں کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ تسلیم جہاں کو انصاف کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کلکتہ میں پیش آنے والا واقعہ بھی انتہائی افسوسناک اور سفاکانہ واقعہ تھا، اسے قومی سطح پر کافی توجہ ملی، یہاں تک کہ ملک بھر کے ڈاکٹروں نے بھی اس کی مذمت کی۔ احتجاجاً ہڑتال کی اور میڈیا میں کئی دن اس معاملے پر بحث ہوتی رہی لیکن تسلیم جہاں کے معاملے میں ہر طرف سے خاموشی چھائی رہی اور کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ مولانا مدنی نے سوال کیا کہ کیا ملک میں مذہب کی بنیاد پر انصاف مل سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر قانون کے مطابق انصاف فراہم کیا جاتا تو شاید جمعیةعلماء ہند کو سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرنا پڑتا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے اتراکھنڈ حکومت کو معاملے کی سماعت کے لیے نوٹس جاری کیا ہے۔ درخواست میں اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ نرس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اتراکھنڈ پولیس کی اب تک کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس لیے وہ کسی اور ایجنسی سے آزادانہ تحقیقات چاہتے ہیں۔