محمدشارب ضیاءرحمانی
یکساں سول کوڈ پر تیس دنوں میں عوامی رائے مانگی گئی ہے۔ پانچ سال قبل بھی یہ جن بوتل سے باہر نکلاتھا تو رائے عامہ کوہموارکرکے، حکمت عملی کے ساتھ اسے بوتل میں بند کر دیا گیا تھا۔ اب صورت حال ہے کہ رائے دینے کے لیے صرف 30 دنوں کا وقت ہے،ننانوے فی صد بلکہ اس سے زیادہ مسلم آبادی کو پتہ ہی نہیں ہے ایسی کوئی رائے طلبی ہوئی ہے یا یکساں سول کوڈ کے کیانقصانات ہوں گے یا یکساں سول کوڈ کس مخلوق کا نام ہے؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم پرسنل لاءبورڈ اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان بیداری پیداکرتا، اور مکمل طریقہ کار بتاتا کہ کس طرح لاءکمیشن کورائے بھیجی جائے لیکن ایسے نازک وقت پر جب کہ یہ خود پرسنل لاءبورڈ کے وجود کا سوال ہے، بورڈ’ پریس ریلیزیائی ڈگر‘سے آگے نہیں بڑھ سکاہے، بورڈ نے جو پریس بیان جاری کیاہے اس میں کوئی رہنمائی نہیں ہے کہ کس طرح رائے دینی ہے، میل آئی ڈی یا جو بھی طریقہ کار ہے اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی،ایک روایتی پریس ریلیز ضرورت کی تکمیل نہیں کرسکتی۔
نیز اس سلسلے میں خصوصی طور پر برادران وطن کے قبائلی طبقوں-ایس سی، ایس ٹی، دیگر مذہبی اقلیتوں-عیسائی، بدھسٹ، جین، لنگائیت کوزیادہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یکساں سول کوڈ سے کس طرح ان کی ثقافتی ومذہبی روایت متاثر ہوگی۔رائے دہندگی کے لیے مسلمانوں میں بیداری کے ساتھ یہ پھر ضروری ہوگیاہے کہ مسلمان اس معاملہ میں فریق بننے کی بجائے دوسروں کو فریق بنائیں،دیگر طبقات کوآگے کرکے باور کرائیں کہ یہ اقدام مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ تکثیریت اور دیگر طبقات کی ثقافتی ومذہبی آزادی کے خلاف ہے، یکساں سول کوڈسے کس طرح ان کی شادی بیاہ، اور کلچر متاثر ہوں گے بلکہ جواب دینے کے عمل میں انہیں زیادہ سے زیادہ شامل کیاجائے۔
یہ بھی اہم ہے کہ چینلوں پر چل رہے پروگراموں کا متحدہ بائیکاٹ کیاجائے۔ یعنی چینلوں پر جانے سے مکمل پرہیز کیاجائے بلکہ بورڈ اس سلسلے میں اعلامیہ جاری کرے کہ کوئی بھی مسلمان ،چینلوں کے پروگراموں میںشرکت نہ کرے ،اورخاص طورپریکساں سول کوڈکے ایشوپربالکل شریک نہ ہو۔کیوں کہ فرقہ پرستی کو غذا وہیں سے فراہم ہوتی ہے۔جاری بحثوں کے ذریعہ فضاسازی کے اس مقصدمیں آسانی ہوجاتی ہے جویکساں سول کوڈکے شوشے کے پیچھے کارفرماہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ دیگر طبقات و مذاہب کے نمائندوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتمام کرایاجائے۔ اس سے یقینی طور پر مفیداثر ہوگا۔یادآتاہے کہ 2018میں پریس کلب دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی گئی تھی جس میں مین اسٹریم میڈیاکی شرکت یقینی بنانے کی کوشش کی گئی تھی،اس میں قبائلی طبقے کے رہنماﺅں،عیسائی،جین،بدھ ، لنگائیت کے نمائندوں نے برملاکہاتھاکہ یکساں سول کوڈکاسب سے پہلے نشانہ ہم لوگ ہوں گے۔یہ ہماری روایت،کلچراورتہذیب کونشانہ بنانے کی کوشش ہے۔یہ پریس کانفرنس مسلم پرسنل لاءبورڈکی اس وقت کی قیادت کی تحریک اورحکمت عملی کانتیجہ تھاجس نے بڑی حدتک ان طبقات میں بیداری پیداکی تھی۔نیزبورڈنے دستوربچاﺅتحریک میں ان طبقات کوساتھ لے کرملک کوپیغام دے دیاتھاکہ یکساں سول کوڈکے اصل نشانے پرکون لوگ ہیں۔اس کے بعدلاءکمیشن کے سربراہ کو کہنا پڑا کہ ملک میں یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے،پھریہ آوازدب گئی۔
مسلم پرسنل لاءبورڈ اور ملی تنظیمیں تمام غیربی جے پی پارٹیوں(خاص طورپرتلنگانہ،آندھراپردیش اوراڈیشہ کی حکمراںجماعتوں) سے ملاقات کرکے پریشر ڈالیں کہ اگر اس طرح کا بل پارلیمنٹ میں پیش ہوتو واک آو ¿ٹ نہیں(جس طرح بعض نام نہادسیکولرپارٹیوں نے واک آﺅٹ کرکے طلاق ثلاثہ بل کی منظوری میں حکومت کے لیے سہولت پیداکردی تھی۔) بلکہ ایوان میں رہ کر بل کے خلاف ووٹ کرکے بل کو گرائیں، کم ازکم راجیہ سبھا میں تو اس سے مشکل ضرور ہوگی۔
اگر دیگر طبقات کو مذاہب کو بورڈ سمجھانے میں کامیاب ہوگیاتو یکساں سول کوڈ 2024 کا انتخابی ایشوز نہیں بن سکے گا کیوں کہ بی جے پی ایس سی، ایس ٹی اور قبائلی آبادی کی ناراضگی مول لینے کا رسک نہیں لے گی، لیکن اگر اس میں مسلمان فریق بن گئے تو ایک مخصوص تھنک ٹینک کو اپنے انتخابی اورسیاسی مفاد کو پوراکرنے میںآسانی ہوگی۔یہ بحث ابھی بالکل فضول ہے کہ یکساں سول کوڈکانفاذعملاممکن ہے یانہیں۔جولوگ یہ تنازعہ کھڑاکیے ہوئے ہیں وہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن اس کے پیچھے جوسیاسی اورانتخابی مقاصدکارفرماہیں،کم ازکم اس شوشہ کواچھالنے سے وہ مقاصدتوپورے ہوجائیں گے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں