مغرب سے قربت اور اثر پذیری کی وجہ سے تمام قوموں میں ’’ڈے کلچر‘‘ نے رواج پالیا ہے، اس موقع سے ان دنوں کی یاد منائی جاتی ہے جو ہماری اچھی بری یادوں سے جڑی ہوتی ہیں، انہیں میں سے ایک یوم مزدور بھی ہے جو یکم مئی کو ہر سال منایاجاتا ہے، کل کارخانے بند رہتے ہیں، لیکن اس کا کوئی اثر مزدوروں کی زندگی پر پڑتا نظرنہیں آتا، کیوں کہ عملاً یہ صرف ایک دن کی فرصت ہے اور مزدور بہت سارے روز کمانے کھانے والے ہوتے ہیں، بندی سے انہیں یہ نقصان ہوتا ہے کہ ان کی ایک دن کی اجرت مارے پڑجاتی ہے اور کبھی تو ان کے چولھے کے ٹھنڈے رہ جانے کی نوبت آجاتی ہے، اس دن کو منانے والے اگر اس دن مزدوروں کے لیے فلاحی اسکیموں کا انتظام کرتے، ان کی ضروریات کی کفالت کے لیے انہیں بونس دیتے، ان کے بچوں کی تعلیم کا فری نظم کروادیتے تو یہ دن مزدوروں کے لیے راحت رسانی کا ذریعہ بنتا اور اس دن کی افادیت سامنے آتی۔
ڈے کلچر میں یوم پیدائش (برتھ ڈے) یوم عروسی میرج ڈے، برسی، وغیرہ کا تصور عقل وخرد سے میل نہیں کھاتا، بد قسمتی سے مسلمانوں میں یہ کچھ زیادہ ہی رواج پاتا جا رہا ہے، ذرا سوچیے پیدائش، شادی مرنے کا دن دو بارہ کس طرح آسکتا ہے، تاریخ آتی ہے، لیکن وہ دن کہاں سے آئے گا، وہ دن تو ایک ہی دن ہے، جب آدمی پیدا ہوا، مرا۔چار شادی کرے گا تو زندگی میں شادی کا دن زیادہ سے زیادہ چار بار آسکتا ہے، یہی حال شب معراج کا ہے، شب معراج تو وہی ایک رات تھی، جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو ملأ اعلیٰ کی سیر کرائی گئی، ہمارا عقیدہ ہے کہ اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا، تو دوسری شب معراج کس طرح آسکتی ہے، لوگ تاریخ کوڈے سے تعبیر کرنے لگے اور سارا جشن اسی عنوان سے منایا جاتا ہے، اس میں شرعی طور پر منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور لاکھوں روپے فضولیات پر خرچ کیے جاتے ہیں۔
یوم مزدور امریکہ کے شہر شکاگو میں مئی1886 میں سرمایہ دار طبقوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم ہوا اس کی یاد میں منایاجاتا ہے، اس حادثہ میں بم دھماکہ کی وجہ سے 7 پولیس اہل کار سمیت گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے، کئی کو قید کر لیا گیا، مقدمہ چلا، عمر قید کی سزا ہوئی،دار ورسن کا سامنا کرنا پڑا، اس حادثہ کے موقع پر ایک مزدور نے خون میں ڈوبا ہوا اپنا کپڑا لہرایا، یہ خونی کپڑامزدوروں کے لیے حوصلہ مندی کا پیغام تھا، چنانچہ خونی رنگ ان کا علم بن گیا، نومبر 1987ء میں ایک مزدور نے پھانسی کے پھندے پر جانے سے پہلے نعرہ لگایا ’’غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی‘‘۔
یہ دن پہلی مرتبہ 1890میں ریمنڈلیون کی تجویز پر منایا گیا، اور مزدوروں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج اور مظاہروں کے تسلسل کو باقی رکھا، اس تحریک کے نتیجے میں 1893میں جن مزدوروں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی انہیں معافی دی گئی اور ان پر چلائے گیے مقدمہ کے لیے اظہار افسوس کیا گیا، روزانہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے بجائے آٹھ گھنٹہ کا وقت مقرر ہوا، جس سے مزدوروں کو بڑی راحت ملی، مختلف مہہ وسال میں مزدوروں کے جو مطالبات تسلیم کیے گیے ان میں ایک یوم ہفتہ کی تعطیل، مزدور یونین بنانے، ملازمت کا تحفظ، لیبر کورٹ کا قیام، خواتین مزدوروں کے دوران حمل رخصت کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔
ہندوستان میں بھی مزدوروں کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن اس قانون میں چار اہم ایسی خامیاں ہیں جس نے مزدوروں کے حقوق پر شب خوں مار دیا ہے، ان میں پہلی کمی یہ ہے کہ ایسے ادارے اور کمپنیاں جن کے یہاں ملازموں کی تعداد تین سو سے کم ہے وہ بغیر وجہ بتائے ادارے کو بند اور ملازموں کو بر طرف کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ چھوٹے اداروں میں پرونٹ فنڈ، گریجوٹی، انشورنس اور زچگی کی فوائد نہیں ملتے اور مالکان قانون کی رو سے اس کے پابند نہیں، جن اداروں میں لاگو ہوسکتے ہیں، ان کے مالکان بھی قانون میں بعض شرائط اور لچک کا فائدہ اٹھا کر واجبی حق کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ اس قانون کی تیسری خرابی یہ ہے کہ دو ہفتے پہلے نوٹس دیے بغیر ہڑتال نہیں کیا جاسکتا، ہڑتال کی حمایت کرنے والوں کو سزا دینے کا طریقہ بھی رائج ہے، اس طرح یہ قانون مالکان، ٹرسٹیان اور شرکاء کے حق میں زیادہ مفید اور مزدوروں کے حق میں کمزور ہے۔
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں کی حالت زار کا مشاہدہ اور تجربہ خود مزدوری کرکے کیا تھا، اس لیے اسلام میں مزدوروں کے حقوق کی رعایت کے لیے خاص حکم موجود ہے، مٹی میں اَٹے مزدوروں کے ہاتھوں کی تعریف کرکے ان کی اہمیت بتائی گیی ہے، پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری کی ادائیگی کا فرمان جاری کیاگیا
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اعطوا الاجیر اجرہ قبل ان یجف عرقہ‘‘ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو، اس کو پھیرے نہ لگواؤ۔ مزدوری کی تعیین کا فیصلہ کام کرانے والے پر نہیں مزدور پر چھوڑا،ان سے ان کی صلاحیت وطاقت سے زیادہ کام لینے سے منع کیا اور ان کی ضروریات پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت دی۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کا فریق ہوں گا، ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پور ا کام لے لے اور اُجرت نہ دے۔(بخاری)
حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں، ایک دفعہ میری ایک لونڈی بکریاں چرا رہی تھی کہ کچھ دیر وہ بے پرواہ ہو گئی، اس کی بے پرواہی سے بھیڑیا آیا اور ایک بکری لے گیا۔ میں دیکھ رہا تھا، میں لونڈی کے پاس گیا اور غصے میں اسے زور سے تھپڑ مارا اور کہا بے پرواہ بیٹھی ہوئی ہو، بھیڑیا بکری لے گیا ہے۔ جب زور سے تھپڑ مارا تو پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود! اس کو تھپڑ مارنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ تم سے طاقتور بھی کوئی ہے جو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسول اللہؐ تھے۔ نیچے والے پر ظلم کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ میرے اوپر بھی کوئی ہے۔
مزدوروں کے حقوق پر جو باتیں اسلام نے کی ہیں، اس سے زیادہ کسی کے یہاں موجود نہیں ہے، اس گئے گذرے دور میں بھی مسلمان بڑی حد تک ان احکام پر عامل ہے، اسی لیے اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مزدوروں کے احتجاج اور مظاہرے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی، اور دوسرے مذاہب کے مالکان کے مقابلے مسلمانوں کے یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت قدرے بہتر ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا معمول یہ تھا کہ جیسے کپڑے خود پہنتے تھے ویسے ہی نوکروں کو پہناتے تھے۔ ایک دن ایک آدمی نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے کہا آپ نے جو اتنا قیمتی لباس پہنا ہوا ہے ویسا ہی اپنے غلام اور نوکر کو پہنا رکھا ہے، اس کو کوئی ہلکی پھلکی چادر کافی تھی۔ فرمایا، نہیں بھئی! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تمہارے ماتحت ہیں ’’اطعموھم مما تطعمون والبسوھم مما تلبسون‘‘ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی وہی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو ان کو بھی وہی پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالو، جتنا کر سکتے ہیں ان سے اتنا کام لو، اور اگر زیادہ کام اس کے ذمہ لگا دیا ہے اور تمہیں اندازہ ہے کہ یہ اکیلے نہیں کر سکے گا تو ’’اعینوھم‘‘ اس کے ساتھ مل کر کام کرو۔
ہمارے دور کا المیہ یہ بھی ہے کہ مزدور اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو رہے ہیں، اور بڑی حد تک کام چور سے ہوگیے ہیں، دیر سے آنا، وقت پورا کرنا اور وقت سے پہلے نو دو گیارہ ہوجانا عام روش بن گئی ہے، مزدوروں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے، حقوق وفرائض میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اس معاملہ کو ذہن نشیں رکھنا چاہیے، تصادم حقوق وفرائض میں تال میل نہیں ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اگر ہر دو فریق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے تو یوم مزدور منانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور نہ سرمایہ داروں سے تصادم کی نوبت آئے گی، کوتاہی وکمزوری دونوں طرف ہے کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہوگا۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں