تاریخ ساز فیصلہ پر الہ آباد کے مسلمانوں کو مبارک باد

جولوگ اسے جانتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ الہ آباد کے مسلمانوں نے کتنی بڑی قربانی دی ہے ۔عشرہ اور علم کے جلوسوں اور مجلسوں کا پروگرام ہرشہر میں اور ہر صوبہ میں الگ الگ ہوتاہے۔ اور ان میں کسی طرح کی تبدیلی کی کوئی مثال ہمیں یاد نہیں ۔ ہم نے جواپنے بچپن کی یادوں پر مشتمل ایک تحریر لکھی تھی وہ آپ نے کل پڑھ لی ہوگی ۔ ہم نے گڑ کی بھیلی اور ایک روپیہ کا ذکر کیا تھا ۔ اس کی سب سے اہم چیز بازار میں ’’مندرمنڈھیاں‘‘میں ایک کنواں تھا ۔ اس میں سے ڈیڑھ ڈول پانی نکال کر کربلا کے پیاسوں کو پلایا جاتاتھا ۔ اس کے لئے وہی منتظم صاحب بالکل نئے چمڑے کا ڈول بنواتے تھے اور اس ڈول سے ایک بار بھرا ہوا نکال کر سب کو پلاتے تھے اور دوسرا ڈول نکال کرآدھا اسی کنویں میں اہتمام سے پھینک دیتے تھے۔ اور آدھا پلایا جاتاتھا ۔اورکسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ مندر کا دروازہ یا کنواں بند کردے۔ 
الہ آباد بریلی اور آگرہ انتہائی جذباتی شہر مانے جاتے ہیں ۔الہ آباد ہی وہ شہر ہے جسے مسلم لیگ کے لیڈروں نے پاکستان میں شامل کرنے کا فریب دیا تھا ۔ اس لئے کہ ملک کے کسی شہر میں ایسی دیوانگی پاکستان کے لئے نہیں دیکھی تھی ۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ ہمارا کوئی رشتہ دارالہ آباد میں نہیں ہے لیکن جتنے دوست اور محبت کرنے والے الہ آباد میں،لکھنؤ کے علاوہ کہیں نہیں ہیں ۔ ہماراالہ آباد جانااوروہاں کے دوستوں کا لکھنؤ آنا برسوں ایسا رہا جس کی وجہ سے الہ آباد کے بارے میں ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا وہاں کے مقامی حضرات ۔اورجب انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اس سال عاشورہ کا جلوس نہیں نکلے گا تو لگاکہ یہ اتنا ہی بڑا فیصلہ ہے جیسے سورچ مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے گا۔ 
ہم نہیں جانتے کہ فیصلہ کرنے والے سنجیدہ مسلمانوں کو اور اس پر خوش ہونے والے ہندوؤں کو یہ معلوم ہے کہ نہیں کہ ہراعتبار سے عاشورہ کا جلوس نکالنے والوں کا حق تھا کہ وہ نکالتے اور ہندوبھائیوں کو یہ رواداری دکھاناچاہئے تھی کہ ہم اپنا جلوس نہیں نکالیں گے۔اس لئے کہ رام چندر جی ،سیتاجی اور راون پر بنی یہ کہانی ایسی نہیں ہے جس کوہندوستان کے سوکروڑ ہندوصحیح مانتے ہوں ۔ دوسال پہلے تمل ناڈو کے سب سے بڑے دراوڑلیڈرشری کروناندھی نے کھلے الفاظ میں کہا تھا کہ رام چندرجی کی کہانی تاریخی نہیں ایک فرضی کہانی ہے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پروجوں(جدّامجد )کودنیا سے گئے ہوئے صرف چندہزار سال ہوئے ہوں ۔ اور کسی نہیں معلوم کہ وہ کہاں دفن ہیں یا کہاں جلائے گئے ؟اور انہوں نے کب کہاں کیا کیا؟اسی کو بنیادبنا کر انہوں نے کہا تھا کہ جو ہندوان کی جنم بھومی بناتے ہیں یا سیتاماں کی رسوئی بتاتے ہیں ،یاان کی تاریخ بتاتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ لاکھوں برس پہلے تھے تواس کا نشان بتانا کیسے ممکن ہے۔؟
شری کروناندھی کے بیان کے دوسرے دن ہی اس وقت کے بنگال کے وزیراعلیٰ سی پی ایم لیڈر مسٹربھٹاچاریہ نے بھی اس کی تائید کردی ۔ لیکن بنگالی ہندوؤں نے شورمچادیا تو انہوں نے کہا میں نے شری رابندر ناتھ ٹیگور کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ یہ صرف برائی پر اچھائی کی فتح کی ایک سبق آموز کہانی ہے۔ اور یہ ایسی بات نہیں ہے کہ صرف ان تین لیڈروں نے ہی کہی ہو بلکہ ملک میں نہ جانے کتنے دانشوریہی مانتے ہیں ۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے مثال کہانی ہے۔ لیکن کربلا کے میدان میں حضرت امام حسینؓ اور اہل بیت اطہار کی شہادت یاکوفہ کے گورنر اوراپنے والد کے بتائے ہوئے شاہ یزید کی بدکرداری ۔تاریخ کے ایسے اوراق ہیں جن کو دنیا کے اربوں مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی تصنیف نہیں کہتا ہر مسلمان اسے پوری ایمانداری سے تسلیم کرتاہے۔ 
رہی یہ بات کہ اس الم ناک واقعہ کی یاد کہاں کیسے منائی جاتی ہے؟اور کس ملک یا کس صوبہ اور کس شہر بلکہ قصبہ اور کس گاؤں میں کیسے منائی جاتی ہے؟یہ ایسی ہی بات ہے کہ ایک باپ کے مرنے پر اس کے ہر بیٹے اور ہر بیٹی کے غم کا اظہار مختلف ہوگا ۔ کوئی سکتہ میں ہوگا کسی کے آنسو پانی کی طرح بہہ رہے ہوں گے،کوئی دعائے مغفرت کررہا ہوگا کوئی بہنوں کو صبر کی تلقین کررہا ہوگا اور کوئی ہوسکتاہے کہ صدمہ سے غش کھا کر گرپڑا ہو۔لیکن یہ کسی نے آج تک نہیں کہا کہ ایک اسلحہ سے لیس لشکر اور ایک 72نفوس پاک کا کنبہ جس میں بزرگ بھی ہیں جوان بھی ماں بہنیں بھی ہیں معصوم بچے بھی۔ اور اس ظالم اور جابر لشکر کے ہاتھوں شہید نہیں ہوا۔ یا لشکر کو مخاطب کر کے حضرت امام حسینؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ واللہ روئے زمین پر سوائے میرے کسی نبیؐ کی لڑکی کا بیٹااس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود تاریخی اعتبار سے الہ آباد کے عزاداروں کا ہاتھ اوپر تھا اور مقدمہ ان کا جیتاہواتھا انہوں نے حقیقت کو اختلافی رسم پر قربانی کر کے ہر ہندو پر احسان کیا ہے۔یہ صرف ایک شہر کا واقعہ ضرورہے ۔ لیکن اس لئے بے حد اہم ہے کہ یہ الہ آباد کے مسلمانوں کافیصلہ ہے جنہیں ہم نے کسی بھی مسئلہ میں قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ 
ہم جو گھر میں ہی رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں دودن مسلسل اس فکر میں کروٹیں بدلتے رہے کہ دسہرہ اور عشرہ ایک ہی عشرہ میں پڑنے کی وجہ سے اللہ جانے کیا کیا سننا پڑے گا؟۔خصوصیت کے ساتھ ملک کی فضاایسی بن جانے کے بعد کہ مشہورومعروف نغمہ نگار گلزاربھی ہم آہنگی بگڑنے پر آزردہ ہیں ۔ انہوں نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا کہ ۔پہلا ایسا ماحول نہیں رہا کہ نام سے پہلے مذہب پوچھا جاتاہو؟۔یا بے خوف ہو کر اپنی بات بھی نہ کہہ سکیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو کہیں رام راج نظرنہیں آرہا ۔ میں اس آدمی سے ضرور ملنا چاہوں گا جسے نظر آرہا ہو ۔ 
اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتاکہ آزادی سے پہلے بھی ہر تیوہار پولیس کی نگرانی میں منایا جاتاتھا ۔ لیکن ایساتوکبھی نہیں تھا کہ سننے کی حد تک پرانے لکھنؤ کی ہر گلی کو پولیس نے بند کررکھا تھا ۔ اور ہرقسم کی پولیس اتنی تعدادمیں تھی جس سے اندازہ ہوتاتھا کہ جیسے عزاداری کے جلوس کسی دوسرے ملک میں نکالے جارہے ہیں ۔ اور سب سے زیادہ شرم کی بات یہ تھی کہ اتنی پولیس جو انتظامیہ کو لگانی پڑی اس کی وجہ دسہر ہ کے شرکاء کا خوف نہیں تھا اس لئے کہ وہ تودودن پہلے ختم ہوگیا تھا ۔ یہ خوف شیعوں کے ہی ایک گروپ اور سنی نوجوانونوں کی طرف سے تھا ۔ ہرکسی کو معلوم ہے کہ حکومت نے یہ طے کررکھا ہے کہ وہ ایسے کسی جھگڑے کی بدنامی نہیں برداشت کرے گی ۔ کیا مضائقہ ہے اگر جو اپنے عقیدے اور جذبات کا جس طرح مظاہرہ کرنا چاہے کرے؟۔چالیس دن کے بعد چہلم ہے اوراس کے بعد جلوس مدح صحابہؓ گویا ابھی ایک مرتبہ ہرسنی پر شیعہ کی نظر رکھی جائے گی اور 12؍ربیع الاول کو شیعان علیؓ پر ۔کیادونوں کے لئے یہ توہین کی بات نہیں ہے؟۔

«
»

دوقدم تم بھی چلو۔۔۔

بے چارہ گائے کاہتھیارہ کیوں ماراگیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے