شخصیت کی تعمیر میں کارفرما عناصر

اُس میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں ہوتی ہیں مثال کے طور پر حسنِ اخلاق، حسنِ معاملات، سچائی وصداقت، تواضع وانکساری، عزم وحوصلہ، سنجیدگی وبرداشت اور ایفائے عہد جیسی صفات پائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف اُس کے اندر ایسی کمزوریاں بھی راہ پاتی ہیں جو شخصیت کو تباہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں، جن کو ہم چار حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ایک اخلاقی کمزوری، دوسری معاملات کی کمزوری، تیسری جسمانی کمزوری، چوتھی نفسیاتی و ذہنی کمزوری۔
انسان کی سب سے اہم خوبی حسنِ اخلاق ہے اِس کا دائرہ کافی وسیع ہے، اِس میں خوش کلامی بھی آتی ہے یعنی اپنی زبان کا موزوں استعمال، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ ، اِتنا ہی نہیں زبان کی شیرینی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ غیروں کو بھی اپنا بنا لیتی ہے، زبان کے بارے میں ایک کہاوت یہ بھی مشہور ہے کہ ’’تیرکا زخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کا زخم ہمیشہ ہرا رہتا ہے‘‘ واقعی ہم غور کریں تو یہ بڑی حیرت انگیز بات لگتی ہے کہ زبان میں ہڈی نہیں ہوتی، یہ گوشت کا ایک معمولی لوتھڑا ہے، پھر بھی زبان اتنی طاقت رکھتی ہے کہ کسی کا بھی سینہ چھلنی کرسکتی ہے اور اِس سے بہت آسانی کے ساتھ دوسرے کا دل ودماغ متاثر ہوسکتا ہے، بے شمار لوگ ہمارے سماج میں ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ زبان سے پھول بھی جھڑتے ہیں اور خوشبو بھی آتی ہے، لوگوں کا دل بھی خوش ہوجاتا ہے اور اُن کو دکھ بھی پہونچ سکتا ہے، یہی حال انسانی معاملات کا ہے کہ اُن کی وجہ سے جہاں انسان کو عزت، احترام اور وقار حاصل ہوتا ہے ، وہیں اِن کے بگاڑ کی وجہ سے وہ لوگوں میں غیرمقبول، ناپسندیدہ، گرا ہوا انسان سمجھا جانے لگتا ہے کیونکہ انسان اور سماج کے آپسی رشتوں کو اچھے بنانے کے لئے معاملات کا درست ہونا بہت ضروری ہے، معاملات صحیح ہوں گے تو انسان سچائی و صداقت کا دامن بھی تھامے رکھے گا، اُس میں تواضع و انکساری بھی پائی جائے گی اور عزم وحوصلہ بھی نظر آئے گا، سنجیدگی وبرداشت اور وعدہ نبھانے کی خوبیوں سے بھی وہ آراستہ ہوگا۔
انسانی شخصیت کی ظاہری خوبیاں لوگوں کو تھوڑے عرصہ کے لئے متاثر کرتی ہیں اور اگر باطنی صفات نہ ہوں تو اُن کا بھرم جلد کُھل جاتا ہے اور متاثر کرنے کا عمل وقتی ہوتا ہے، اگر انسان کی شخصیت میں اچھے اخلاق وکردار کا عمل دخل ہوتو وہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، اِس لئے علم، تجربہ، جاذبیت، اخلاق اور کردار کے ساتھ ہی انسان کی شخصیت بنتی اور دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔
شخصیت درحقیقت نام ہے ظاہری اور اندرونی صلاحیتوں کا ، اگر کوئی انسان صرف ظاہری خوبیوں کا مالک ہے تو اُس کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے، جلد ہی اُس کی کمزوریاں سامنے آجاتی ہیں۔ اچھے اخلاق ظاہری طور طریقے کا نام نہیں بلکہ اِس کے ذریعہ باطنی کردار اور عمل میں بھی خوبیاں پیدا ہونا چاہئے۔ دنیا کی تمام تعلیمات ، سبھی مذاہب اور فلسفوں کا نچوڑ بھی یہی ہے کہ انسان خود کو ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں سے بہتر بنائے، ساتھ ہی اُس کی کمزوریوں کا خاتمہ ہو، انسانی شخصیت میں عیب پیدا ہونے کی بنیادی وجہ انسان کی اخلاقی کمزوریاں، بُری عادتیں اور خودغرضی ہوتی ہے، جن پر قابو پاکر انسان خود کو بہتر بنا سکتا ہے۔اِسی طرح قومیں انسانوں سے بنتی ہیں اور دنیا میں جتنی قومیں ہیں ان کی فطرت یکساں نہیں ، یہی وجہ ہے کہ کچھ قومیں مثالی اور بعض غیر مثالی تسلیم کی جاتی ہیں کچھ قومیں اپنی وضع داری خاطرداری اور مہمان نوازی کی مثال ہیں اِن میں ہمارا ملک ہندوستان اپنی اہم حیثیت رکھتا ہے یہاں کے انسان خاطرمدارات اور مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں اِس سرزمین کا ایک حصّہ بھوپال ہے، مجھے خوشی اور فخر ہے کہ میں بھوپال میں پیدا ہوئی اور یہاں کی بڑی جھیل کا پانی پیا، یہاں کی چکنی مٹی اور پتھریلے اُتار چڑھاؤ زندگی میں بہت دیکھے میری جو کچھ بھی شخصیت یا حیثیت ہے ، اِس میں بھوپال شہر کا بڑا حصّہ ہے۔ خود اپنے شہر کی تعریف کروں اِس سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ جو دانشور بھوپال آئے اُن کا نظریہ ایک جملہ میں بیان کروں جو یہ ہے کہ ’’بھوپال کی مٹی انسان کے قدم پکڑ لیتی ہے اور یہاں کا پانی آبِ رواں نہیں بلکہ تالاب میں ٹھہرا ہوا ہے مگر اُس میں ہلچل رہتی ہے‘‘، اِن دو خصوصیتوں نے بھوپال کے لوگوں کو مہمان نواز اور زندگی میں قناعت کرنے والا بنادیا ہے، یہی دو خوبیاں ہیں جو بھوپال کو دیگر علاقوں سے کچھ الگ ممتاز بناتی ہیں ۔ مختصر یہ کہ اِن دو خوبیوں نے بھوپالیوں کو قناعت پسند اور مہمان نواز بنادیا اگر قدیم بھارت کا تصوّر کریں تو بھوپال بھی ایک ملک ہوا کرتا تھا یہاں کے عوام کی شخصیت کو اُس کی مٹی اور اُس کے پانی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 
میں نے اپنے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی آپ کو بھی سناتی ہوں، ایک اونچے پہاڑ سے پانی کا جھرنا نکل کر بہہ رہا تھا جو آگے چل کر چھوٹی سی ندی بن گیا، یہ چھوٹی سی ندی ایک بڑے میدان سے گزر رہی تھی، اِس میدان میں ایک آدمی کھڑے ہوکر بہتی ندی کو دیکھ رہا تھا، اُس کی نظر پانی کے ساتھ ساتھ بہتے ایک بچھو پر پڑی تو اُس کے دل میں بچھو کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی کہ کہیں یہ پانی میں بہہ کر مرنہ
جائے، اُس آدمی نے پانی میں ہاتھ ڈال کر بچھو کو نکال لیا، لیکن بچھو نے اپنی عادت کے مطابق اُس کو ڈنک مارنے کی کوشش کی تو اُس نے گھبراکر اُسے چھوڑ دیا، بچھو پانی میں گرگیا، اُس آدمی کو پھر بچھو پر رحم آیا تو اُس نے ہاتھ بڑھاکر اُسے دوبارہ اُٹھانے کی کوشش کی، بچھو کا ڈنک پھر چلنے لگا تو وہ آدمی کے ہاتھ سے چھوٹ کر پانی میں جاگرا، تیسری بار بھی یہی ہوا، قریب ہی ایک تجربہ کار شخص کھڑا ہوا یہ منظر دیکھ رہا تھا، اُس سے خاموش نہ رہا گیا تو اُس نے آدمی سے کہا کہ ’’اے بھائی! کیوں پریشان ہورہا ہے، تجھے پتہ نہیں کہ یہ حیوان ہے، ایک موذی حیوان، یہ اپنی حیوانیت اور فطرت نہیں چھوڑے گا،اُس کی فطرت ڈنک مارنا ہے ، تو کیوں اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے‘‘۔
بچھو کی جان بچانے والے آدمی نے جواب میں کہا ’’جب ایک حیوان اپنی حیوانیت نہیں چھوڑ سکتا تو میں انسان ہوکر اپنی انسانیت کیسے چھوڑ دوں؟‘‘
اِس واقعہ کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق وکردار کی وجہ سے ہی انسان بلکہ اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل کرتا ہے اور جب اخلاق وکردار سے محروم ہوجاتا ہے تو انسانیت کے درجے سے نیچے گرجاتا ہے اور اُسے احساس بھی نہیں ہوتا، اِس کے برعکس حیوان اپنی فطرت پر قائم رہتا ہے، انسان کو ایک سماجی جانور اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ سماجی طور طریقوں سے واقف ہوکر ہی انسان بنتا اور کہلاتا ہے۔ اِس کے بغیر وہ انسان قرار نہیں پا سکتا۔
یاد رکھئے! شخصیت علم، تجربہ، اخلاق ، کردار اور جاذبیت کا نام ہے اِس کے لئے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی صلاحیتوں کے ارتقاء کی ضرورت ہے، دنیا میں بڑے لوگ اِس وجہ سے مشہور ہوئے کہ اُنہوں نے اپنی شخصیت کی تعمیروتشکیل پر توجہ دی، اُسے اُبھارا اور نکھارا، جس کے نتیجہ میں اُن کی صلاحتیں نکھرکر سامنے آئیں اور وہ عوام الناس کی توجہ کا مرکز بن گئے اور بڑے آدمی کہلائے۔(

«
»

دوقدم تم بھی چلو۔۔۔

بے چارہ گائے کاہتھیارہ کیوں ماراگیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے