کابل : روس نے ایک تاریخی فیصلہ لیتے ہوئے افغانستان میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے، یوں وہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلا ملک بن گیا ہے جس نے سفارتی سطح پر یہ قدم اٹھایا ہے۔ ماسکو کے اس اعلان نے خطے میں سیاسی تجزیہ کاروں کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا اب دیگر ممالک بھی طالبان کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہوں گے؟
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا ہے، خاص طور پر توانائی، زراعت، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے۔ وزارت کے مطابق، "ہم سمجھتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل دونوں ملکوں کے درمیان نتیجہ خیز دو طرفہ تعاون کے لیے راہیں ہموار کرے گا۔”
یہ اعلان کابل میں اُس وقت سامنے آیا جب روسی سفیر دمتری ژیرنوف نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور ماسکو کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ افغان وزارت خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں متقی نے روس کے فیصلے کو "جرات مندانہ قدم” قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ "یہ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔”
روس کا یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا ہے جب چین، ایران، پاکستان، قطر اور وسطی ایشیا کے متعدد ممالک پہلے ہی طالبان سے روابط رکھے ہوئے ہیں، لیکن تاحال کسی نے بھی رسمی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اگرچہ کئی ممالک طالبان سے عملی تعاون کر رہے ہیں، لیکن تسلیم کرنے کے معاملے میں محتاط رویہ اختیار کیا گیا ہے—تا حال۔
روس کا یہ غیر متوقع مگر پالیسی کی گہرائی پر مبنی قدم اس لیے بھی اہم ہے کہ طالبان کے پہلے دورِ حکومت (1996-2001) کے دوران روس اور طالبان کے درمیان سخت دشمنی پائی جاتی تھی۔ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں ماسکو اور کابل کے درمیان خاموش اور تدریجی رابطے جاری رہے، جو اب ایک واضح سفارتی تعلق کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روس کے اس قدم کے بعد خطے میں طالبان کے لیے سفارتی تنہائی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ چین، ترکی، ایران اور خلیجی ریاستیں پہلے ہی طالبان کے ساتھ محدود لیکن مستقل رابطے میں ہیں، اور اب امکان ہے کہ وہ بھی آئندہ مہینوں میں اپنے رویے میں نرمی لا سکتے ہیں۔