(منور احمد کشن گنجوی)
ملک بھر میں پسماندہ مسلمانوں کی ترقی اور تحفظات کے حوالے سے تقاریب کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ وہیں اس سلسلے میں جولائی ماہ میں حیدرآباد میں منعقدہ بی جے پی کی نیشنل اکزکیٹیو میٹنگ میں وزیر اعظم نے پارٹی کارکنوں کو، ہندوؤں کے سوا، ملک کے دیگر تمام پچھڑے اور پسماندہ طبقات تک پہنچنے کے لیے ملک گیر پیمانے پر ”سنیہا یاترا“ کا اہتمام کرنے کا مشورہ دیاتھا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپوزیشن کی بے وزنی اور زندگی کے ہرشعبے میں پسماندہ طبقات کے ساتھ جاری امتیازی سلوک کی مکمل عکاسی کی بات کہی تھی۔
وزیر اعظم کی جانب سے پارٹی کارکنوں کودی گئی ہدایات کے مطابق، کیا بی جے پی سماج کے پسماندہ عوام کے ووٹوں تک پہنچ کر اپنے ووٹ بینک کو وسعت دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے؟یامسلمانوں کے مختلف طبقات کو تقسیم کرنے کی یہ ایک چال ہے؟قابل ذکر ہے کہ یہ بی جے پی،آر ایس ایس اور ان کی تمام محاذی تنظیموں کی یہ ایک چال بھی ہوسکتا ہے کہ پسماندہ طبقات کو حکومت میں شراکت داری کا لالچ دیتے ہوئے انہیں قریب کیا جائے۔
واضح رہے کہ آج کا پسماندہ مسلمان باشعور ہو چکا ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ مسلمان سوچے سمجھے بغیر کسی بھی پارٹی کو آنکھ بند کر کے ووٹ دے دے گا۔ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ اب مسلمان انہیں ووٹ دے گا جو مسلمانوں کی حق کی بات کرے گا۔
اس کے ساتھ ہی ہم چاہتے ہیں کہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کرنا فوراً ختم کرے۔ اسی سلوک کا مطالبہ ہم ہمارے دیگر مذاہب کے دلت بھائیوں کے لیے بھی کرتے ہیں کیوں کہ یہ بھی اعلیٰ طبقات کے نارواسلوک کا شکار ہیں۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ پسماندہ طبقات کے مسائل کو سلجھانے کی جدوجہد میں تنہا مسلمانوں کی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہوں گی۔ اس مہم میں کامیابی کے لیے ہمیں دیگر پسماندہ دلت اور تمام ترقی پسند پسماندہ طبقات اور انصاف پسند سماج کے افراد کی شمولیت بھی ضروری ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی مہم کے مثبت اثرات، سماج اور ملک پر اسی وقت مرتب ہوں گے جب ملک میں مذہبی ہم آہنگی، آپسی اتحاد و اتفاق کا ماحول ہموار کیا جائے۔ ایسی ’سنیہا یاترا‘نکالنے کا کیا فائدہ جب کہ پارٹی قائدین اور ہر سطح کے کارکن، جگہ جگہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے اور نفرت انگیز بیانات دینے میں دن رات مصروف ہیں۔ بی جے پی کا چھوٹا،بڑا،جاہل اور تعلیم یافتہ ہر کارکن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اخلاق سے گرے ہوئے بیانات دے کر ماحول خراب کر رہا ہے۔ بی جے پی کی زیر قیادت ریاستوں میں بے قصور مسلمانوں کے گھروں،دوکانوں اور فیکٹریوں پر بلڈوزر چلا کر تباہی مچائی جا رہی ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف زہر آلود ماحول خود بی جے پی بنا رہی ہے۔ ماب لنچنگ کے ذریعے بے گناہ، بے قصور، تنہا، معصوم مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ’گھر واپسی‘ اور ’لو جہاد‘ کے نام پر اور کورونا لہر کے دوران تبلیغی جہاد کے نام پر پولیس کی جانب سے غیر ضمانتی وارنٹ کے ذریعے مسلمانوں کو گرفتار کر کے بغیر کسی جرم کے انہیں جیلوں میں قید کر کے رکھا گیاہے۔ ملک کی مختلف جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ جس مسجد کو چاہا اسی میں مندر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنا بی جے پی اوردیگر تمام ہم خیال پارٹیوں کی عادت بن چکی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جو بے قصور انسان قتل کیے گئے، زندہ جلائے گئے، پیٹ پیٹ کر مار دیے گئے یا جسمانی طور پر زندگی بھر کیلئے اپاہج اور معذور بنا دیے گئے، اس میں بیشتر مسلمان ہی تھے۔
بی جے پی کی برسراقتدار ریاستوں کے وزراء اعلیٰ، وزراء اور دیگر قائدین، بلا وجہ پسماندہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں یا انہیں پاکستان بھیجنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ کیا کسی ریاست کے وزیراعلیٰ کو اپنی ہی ریاست کی عوام کو دھمکیاں دینا زیب دیتا ہے؟ کیا ان کا یہ انداز بیان، ان کے اعلیٰ مرتبے کے شایان شان ہے۔ آپ کو مرکزی وزیر داخلہ مسٹر امیت شاہ کے اس بیان کا علم ہو گا جب انہوں نے سی اے اے اور این آر سی قانون کے نفاذ کے خلاف، دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کی جانب سے منظم کیے گئے مشہور زمانہ احتجاج کے دوران دہلی انتخابات کے موقع پر کہا تھا کہ اگر انہیں موقع ملے تو وہ صرف ایک بٹن دبا کر ان احتجاجی خواتین کا بجلی کے ایک جھٹکے کے ساتھ خاتمہ کر دیں گے!
اپنے ہی ملک کے عوام کے خلاف کسی بھی وزیر کو، خواہ وہ وزیر داخلہ ہی کیوں نہ ہو، کیا اس طرح کا بیان دینا درست ہے؟ ایک موقع پرخود وزیراعظم مسٹرنریندر مودی جی بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ آپ لوگوں کو ان کی پوشاک سے ہی پہچان لیتے ہیں۔ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کا اشارہ کس کی طرف ہے۔
شاید آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ بی جے پی اور اس کی دیگر تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کو ہر طریقے سے اکسانے اور انہیں مشتعل کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلمانوں نے ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور آئندہ بھی اسی طرح صبر سے کام لیتے رہیں گے۔ آج بی جے پی، آر ایس ایس اوردیگر تنظیموں کے کارکن، پولیس یا لا اینڈ آرڈر کی پرواہ کیے بغیر مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے بھی روک رہے ہیں۔ مسجدوں میں گھس کر نماز میں مشغول نمازیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اسلام کے اصولوں اور پیغمبر اسلام کی اہانت کا نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کے کارکنوں کی اسلام کے خلاف اشتعال انگیز و اہانت آمیز بیانات کی وجہ سے آج بھارت کی شبیہ بین الاقوامی سطح پر داغ دار ہو چکی ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت،جو آج ”سنیہا یاترا“کے تحت مہم چلانے کی بات کرتے ہیں،ان کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی وزیراعظم نے اس موضوع پر اپنی زبان سے ایک لفظ نکالا؟ وزیراعظم آج بھی خاموش ہیں؟ جب مسلم دانشوروں، صحیفہ نگاروں اور سماج کے باشعور افراد نے اس سلسلے وار بدتمیزی کے خلاف آواز بلند کی تو پولیس نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ ایسے بے شمار بے قصور مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ کیا مرکزی حکومت”سنیہا یاترا“ کے روزانہ اجرت پر محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں اور مختلف کاریگروں، روزگار نہ ہونے سے فاقہ کشی پر مجبورلوگوں، پریشان حال خاندانوں کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانے میں کوئی مالی مدد کرے گی؟ کیا انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کرے گی؟ کیا انہیں رعایتی داموں پر خام مال مہیا کروانے کے انتظامات کرے گی؟ کل ہند سطح پر پسماندہ طبقات، دلت اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی بنیاد پر مردم شماری کرنے کی جرائت کرے گی؟ اگر پسماندہ طبقات اور متاثرہ عوام کی بہبود کے لیے بی جے پی حکومت یہ کام نہیں کر سکتی تو آپ ہی بتائیے کہ”سنیہا یاترا“ کے دوران کیے جانے والے سرکاری وعدوں پر کیسے اعتبار کیا جائے؟
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔
04دسمبر2022
جواب دیں