مغربی بنگال کی جیلیں مسلم قیدیوں کا مقتل کیوں بن رہی ہیں؟
دعوت نیوز نیٹ ورک
صابر علی کی جیل میں مشتبہ موت کے بعد پولیس اور جیل انتظامیہ سوالوں کی زد میں چند گھنٹے قبل تک صابر علی صحت مند تھے مگر اچانک موت کی خبر تشویش ناک
گزشتہ چھ مہینوں میں بنگال کی مختلف جیلوں میں قید دس سے زائد مسلم قیدیوں کی موت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ایسے میں اس سوال کا اٹھنا لازمی ہے کہ آخر ریاست کی جیلیں مسلم قیدیوں کے لیے مقتل کیوں ثابت ہو رہی ہیں؟ پچھلے دنوں ڈم ڈم سنٹرل جیل میں قاضی پاڑہ، باراسات کے رہنے والے صابر علی کی مشتبہ حالت میں موت نے یہ سوال گہرا کر دیا ہے۔ سخت احتجاج اور ناراضگی کے بعد صابر علی کی تدفین کردی گئی مگر جن حالات میں صابر علی کی موت ہوئی ہے اور جن وجوہات کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا وہ سب سوالوں کی زد میں ہیں۔ جیلوں میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کوئی نئی بات نہیں ہے مگر جس طریقے سے پے درپے مسلم قیدیوں کی اموات ہورہی ہیں اس پر سوالات کا اٹھنا لازمی ہے۔ صابر علی کولکاتہ سے متصل باراسات کے قاضی پاڑہ علاقے میں سماجی کارکن کے طور پر ابھر رہے تھے، وہ گزشتہ کئی سالوں سے ڈرگس اور شراب کے خلاف مہم چلارہے تھے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپریل 2022ء میں باراسات پولیس نے صابر علی اور اس کے دوست کو ڈرگس لے جانے کے معاملے میں گرفتار کیا۔ اپریل سے ہی وہ حراست میں ہیں۔ صابر علی کی بیوہ کہتی ہیں کہ پیر کی رات جیل سے ہی صابر علی نے فون پر بات کی اور بتایا کہ کسی قیدی کے پاس موبائل فون ہے اس سے لے کر یہ کال کر رہے ہیں۔ انہوں نے سردی کے سامان کی ضرورت ظاہر اور کہا تھا کہ وہ مکمل طور پر صحت مند ہیں۔ مگر منگل کی صبح کو پولیس اسٹیشن سے فون آیا کہ آرجی کار میڈیکل کالج و ہسپتال کلکتہ میں صابر علی کی موت ہو گئی ہے۔ صابر علی کے بھائی کہتے ہیں کہ جب وہ آر جی کار اسپتال پہنچے تو بھائی کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے۔ تلوے کا نچلا حصہ کالا تھا۔ جب اس نے اس بابت ڈاکٹروں سے سوال کیا تو ڈاکٹرس نے بتایا کہ موت کے بعد جسم کے کئی حصے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ اس نے ویڈیو گرافی کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے روک دیا جب کہ تلوے کے نچلے حصہ میں کئی نشانات موجود تھے۔ صابر علی کی موت کے بعد قاضی پاڑہ علاقے کے عوام نے سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کیا، نتیجتاً کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام رہی۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ پہلے صابر علی کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا اور اب اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ صابر علی کی موت کے پیچھے علاقے کے مافیا، ڈرگس فراہم کرنے والے افراد اور ان کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرنے والے پولیس افسروں کا ہاتھ ہے۔ گھروالوں کا الزام ہے کہ جیل انتظامیہ نے رپورٹ دی ہے کہ صابر علی کی موت نروس ڈاؤن ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جیل میں ہی اس کی طبیعت بگڑ گئی تھی اور ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی اس کی موت ہو گئی مگر پولیس کی اس تھیوری پر گھر والوں کو یقین نہیں ہے۔ اس سے قبل صابر علی کو نروس ڈاؤن ہونے کی کوئی شکایت نہیں تھی اور نہ ہی اس نے اس سے متعلق گھر والوں سے کبھی بات کی تھی۔ ہسپتال انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے اس کا علاج چل رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی میڈیکل ہسٹری کہاں ہے اور اس کا علاج کس ڈاکٹر سے چل رہا تھا؟ ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا۔ صابر علی کی گرفتاری اور موت سوالوں کی زد میں کیوں ہے؟ باراسات کا یہ علاقہ فرقہ واریت کے اعتبار سے حساس علاقوں میں سے ایک ہے، گزشتہ دہائی کے درمیان یہاں کے مختلف علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 2008ء سے ہی وقتاً فوقتاً ہر سال کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس علاقے میں ڈرگس اسمگلنگ کی شکایتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی سرحد قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں یہ کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ ڈرگس مافیا سے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ کافی طاقتور ہیں۔ صابر علی گزشتہ کئی سالوں سے ڈرگس کے خلاف مہم چلا رہے تھے اور پولیس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے رہے، اس کی وجہ سے صابر علی طاقتور مافیا کی آنکھوں کا کانٹا بن گئے تھے۔ دوسرا یہ کہ ان مافیاؤں کے پیچھے ہمیشہ چند سینئر پولس افسر ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صابر علی کو متعدد مرتبہ جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا جاتا رہا۔ گاؤں والے کہتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک مسلم آفیسر سی آئی ڈی میں تھے۔ انہوں نے کئی مرتبہ مداخلت کر کے صابر علی کو جھوٹے مقدمے سے نجات دلائی تھی مگر ان کے انتقال کے بعد صابر علی کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تحقیق کار آفیسر نے صابر علی اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد جو رپورٹ پیش کی ہے وہ خود صابر علی کی گرفتاری کو مشکوک بناتی ہے اور اہل خانہ اور علاقے کے لوگوں کے دعویٰ کو سچ ثابت کرتی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صابر علی اور اس کے ساتھی کی گرفتاری کے وقت جو ڈرگس برآمد کیا گیا ہے اس کا پولیس کے پاس کوئی عینی شاہد نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ تلاشی کے وقت مجسٹریٹ یا پھر اس کے نمائندے کا ہونا ضروری ہے مگر یہاں تلاشی کی کارروائی کے وقت نہ مجسٹریٹ تھا اور نہ کوئی نمائندہ۔ جب کہ صابر علی نے اپنی گرفتاری سے محض تین دن قبل ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پولیس تھانے میں علاقے میں ڈرگس کی سپلائی کے خلاف میمورنڈم دیا تھا اور وہ گاؤں والوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ ایک مہم چلانے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صابر علی خود ڈرگس کے کاروبار میں ملوث تھا تو پھر اس کو ڈرگس کے خلاف اس شدت کے ساتھ مہم چلانے کی ضرورت کیوں تھی؟کیا کوئی اپنے خلاف پولیس کو میمورنڈم دے گا؟ صابر علی کا گھر انتہائی بوسیدہ اور خراب حالت میں ہے اگر وہ ڈرگس کے دھندے کا حصہ ہوتا تو اس کی مالی حالت اس قدر خستہ کیوں ہے؟ باراسات میں فرقہ وارنہ ماحول باراسات اور دے گنگا میں 2010ء سے ہی مختلف اوقات میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کے صفحات کے جلانے کی خبر کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو گئی تھی، اس کے بعد مسجد پر پتھراؤ کے واقعے کے بعد دونوں فرقے آمنے سامنے ہو گئے تھے۔ 31 دسمبر 2013ء کو باراسات کے اسی علاقے میں فرقہ وارانہ حالات کشیدہ ہو گئے تھے جس میں تین افراد کی موت بھی واقع ہوئی تھی۔ 2017ء میں مسجد کے امام پر حملہ کرنے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے اور اطلاعات کے مطابق آتش زنی تک کے واقعات رونما ہوئے تھے۔ سماجی کارکن صابر غفار بتاتے ہیں کہ باراسات جو کلکتہ سے محض 27 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے وہاں مسلسل مسلم دکان داروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی مسلم دکان دار یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔مہلوک صابر علی ان لوگوں میں شامل تھے جو مسلم دکان داروں کی حمایت میں آواز بلند کرتے تھے۔ لہذا ان کی موت کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صابر علی کن کن لوگوں کے نشانے پر تھے اور ان کو پھنسانے کے پیچھے کیا کیا عوامل کار فرما تھے؟ اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ بنگال کے جیلوں میں مسلم قیدیوں کی اموات اس سال فروری میں طلبا لیڈر اور سماجی کارکن انیس خان کی پولیس کے ہاتھوں موت اور دو ہفتے قبل بوگتوئی قتل عام کے ملزم للن شیخ کی سی بی آئی حراست میں موت کے علاوہ گزشتہ چند مہینوں میں مغربی بنگال کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی موت کے مسلسل واقعات رونما ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر قیدیوں سے متعلق اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ انہیں پولیس نے جان بوجھ کر پھنسایا تھا۔ گزشتہ سال اپریل میں اسی دمدم جیل کے اندر ایک مسلم قیدی کی مشتبہ حالت میں موت ہو گئی تھی۔ 30 سالہ قطب الدین کی بیوہ نے بتایا تھا کہ اس کے شوہر سبزی فروش تھے، پولیس ان سے ہفتہ مانگتی تھی جب انہوں نے دینے میں لیت و لعل سے کام لیا تو انہیں اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور پہلے پولیس حراست میں مارپیٹ کی پھر جیل بھیج دیا گیا وہاں بھی ان کے ساتھ مسلسل زد وکوب کی گئی جس کے نتیجے میں اس کے شوہر کی موت واقع ہوئی ہے۔ اسی سال جنوبی پرگنہ کے برئی پور کی جیل میں اگست کے آخری ہفتے میں دس دن کے اندر چار مسلم قیدیوں کی موت کے واقعات سامنے آئے تھے۔ ان چاروں مسلم نوجوان قیدیوں کو یکے بعد دیگرے ایک ہی نوعیت کے مقدمات ’’ڈکیتی کی سازش‘‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور موت کی نوعیت بھی یکساں تھی یعنی جیل میں "اچانک” بیمار ہو گئے جنہیں ہسپتال پہنچنے کے بعد ڈاکٹروں نے مردہ قرار دے دیا تھا۔ایک ہفتے میں ایک ہی جیل کے چار مسلم قیدیوں کی ایک کے بعد ایک، ایک ہی طرح کی موت کی خبر عام ہونے کے بعد ضلع انتظامیہ نے حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے فوری طور پر اس واقعے کی سی آئی ڈی جانچ کی ہدایت دی تھی مگر چار مہینے گزر گئے ہیں اب تک سی آئی ڈی جانچ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ 11 تا 17 دسمبر کے’’ہفت روزہ دعوت‘‘ کے شمارے میں جیلوں میں بند مسلم قیدیوں سے متعلق اسٹوری میں واضح کیا گیا تھا کہ مغربی بنگال، جہاں مسلمانوں کی آبادی 28 فیصد ہے وہاں کی جیلوں میں مسلم قیدیوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 44 فیصد ہے۔ شمالی چوبیس پرگنہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور آئی ایس ایف سے وابستہ ایڈووکیٹ ضمیر حسن کہتے ہیں کہ جنوبی چوبیس پرگنہ اور شمالی چوبیس پرگنہ میں حکم راں جماعت کی تابعداری سے انکار کرنے والوں کی اندھا دھند گرفتاری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، انہیں مختلف جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ 2021ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد ان دونوں اضلاع میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر سروے کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ کس طرح ان کی اندھا دھند گرفتاریاں ہوئی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ اس کے خلاف کوئی لڑنے والا نہیں ہے۔صابر علی کی موت کے بعد اس کے اہل خانہ خوف زدہ ہیں، صابر علی کے والد جاوید کہتے ہیں کہ ان میں اپنے بیٹے کے انصاف کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ وہ اپنے دیگر بچوں کو کھونا نہیں چاہتے۔ہمارے پاس طاقتوروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ ہم اس جنگ کو ہار رہے ہیں کیوں کہ یہاں کمزوروں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں