بچے قوم کی امانت ہوتے ہیں انہیں قوم کے مستقبل سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے، کسی ملک، سماج اور خاندان کے مستقبل کا اندازہ لگانا ہو تو یہ دیکھ لینا کافی ہوتا ہے کہ اس کے عمر رسیدہ افراد کا اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک ہے، وہ نئی نسل کی نگرانی، تعلیم اور تربیت پر کتنی توجہ دے رہے ہیں، اگر اس میں تساہلی و غیر ذمہ داری برتی جارہی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ قوم کی امانت اور ملک کے مستقبل سے کھلواڑ ہورہا ہے، اس بات کو دوسر ے الفاظ میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ آج کا بچہ جو کل باپ بنے گا یا آج کی بچی جو کل ماں کا کردار نبھائے گی، اس کی تعلیم و تربیت میں کمی و کوتاہی کا نتیجہ، قوم کے مستقبل کی تاریکی میں ظاہر ہوسکتا ہے اور اس میں بھی سماجی واخلاقی قدروں سے اَن دیکھی خطرناک نتائج کی حامل ہوگی کیونکہ اس کمی کی وجہ سے تعصب وتنگ نظری، تشدد و توہم پرستی اور غیر ذمہ داری و بے اعتدالی کچے ذہنوں کو گرفت میں لے سکتی ہے، اسی لئے ہمارے مدبرین ڈاکٹر ذاکر حسین، مہاتما گاندھی، رابیندر ناتھ ٹیگور، عابد حسین، غلام السیدین وغیرہ، غیر اخلاقی تعلیم کے خلاف تھے، ان میں سے ہر ایک نے نئی نسل کی تعلیم میں اخلاقی اقدار کے لئے گنجائش پیدا کرنے پر زور دیا اور اس کی راہ بھی بتائی۔ اسی طرح بچوں کے ادب میں بھی اخلاقیات کے عمل دخل کی ضرورت ہے۔ ماہرین تعلیم کو اس کا احساس تھا کہ ادب انسانی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے، اس کی خوشی و غم، اس کی طاقت و کمزوری، اس کی ہنسی اور آنسوؤں کو اس طرح ہم آہنگ کردیتا ہے کہ انسان اور ادب کے درمیان کوئی دوری نہیں رہ جاتی، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ادب انسان کے صرف دل بہلانے کا ذریعہ نہیں، اسے زندگی سے جوجھنے اور مستقبل کی طرف امید سے دیکھنے کی طاقت بھی فراہم کرتا ہے تبھی وہ سچا ادب ثابت ہوتا ہے، خاص طور سے بچوں کے ادب پر یہ بات زیادہ صادق آتی ہے کہ وہ اس سے اپنا دل ہی نہ بہلائیں بلکہ کچھ سیکھیں بھی، انسان انسان کی طرح کیونکر جی سکتا ہے یہ بچوں کو معلوم ہو اور انسانیت کی راہ پر چلنے کی انہیں تحریک بھی ملے، جو غلط راہ ہے اس سے بچیں، بچپن سے جس راہ پر بچے گامزن ہوں گے اور جس کو صحیح سمجھیں گے، آخر زندگی تک وہ اسی پر چلتے رہیں گے، جو کتابیں ان کو پڑھنے کیلئے ملیں گی یا جو کہانیاں اور نظمیں انہیں سنائی جائیں گی اگر وہ مثبت اندازِ فکر کی حامل ہوں گی زندگی گزارنے کا ایک صالح طریقہ انہیں بتائیں گی تو یقینا آئندہ کی زندگی میں بچوں کے لئے ایک توانائی ثابت ہوں گی۔ یہ صحیح ہے کہ وقت کے ساتھ قدریں بدلتی ہیں اور ہر زمانہ اپنے ساتھ نئی قدریں لے کر آتا ہے پھر بھی بہت سی قدریں ایسی ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جھوٹ کے مقابلہ میں سچائی، بے انصافی کے مقابلہ انصاف، نفرت کے مقابلہ میں محبت، بزدلی کے مقابلہ میں جرأت مندی، بے ایمانی کے مقابلہ میں ایمانداری، جنگ کے مقابلہ میں امن، دشمنی کے مقابلہ میں دوستی پر زور دینا تو کسی زمانے اور عہد میں بدلا نہیں جاسکتا، زمانہ اگر ان قدروں کو ٹھکرائے گا تو اپنے لئے بڑا خطرہ مول لے گا اس خطرہ سے بچنے کے لئے صالح قدروں کو بچوں کے سامنے رکھنا ضروری اور بچوں کے ادب میں انہیں شامل کرنانا گریز ہے۔ لیکن یہ کام کیسے کیا جائے؟ ایک زمانہ تھا جب بچوں کا ادب پندو نصائح سے بھرا ہوا تھا، ریسپ، پنچ تنتر کہانیوں کے جو سبق آموز پہلو تھے وہ بعد میں تحریر کی گئی کہانیوں میں طویل عرصہ تک شامل ہوتے رہے ہیں ایک زمانہ میں بچوں کے ادب کا یہ ضروری حصہ ہوا کرتا تھا لیکن آج کہانیوں کے ذریعہ بچوں کو نصیحت کرنا کوئی اچھا نہیں سمجھتا، نفسیات کے ماہروں کا تو کہنا ہے کہ وہی ادب بچوں کے لئے سپرد قلم کیا جائے جو ان کی تفریح اور دل بہلانے کا باعث بنے، اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کا ادب بنیادی طور پر ان کی خوشی اور دل بستگی کے لئے ہی لکھا جائے اور اس میں غیر محسوس طریقہ پر ان قدروں کو سمو دیا جائے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، انہیں براہ راست نصیحت کرنے کے بجائے کہانیوں اور نظموں کے وسیلہ سے برائی پر بھلائی کی، جھوٹ پر سچائی کی، بے ایمانی پر ایمانداری کی، نفرت پر محبت کی فتح کو عام زندگی کی مثالیں دے کر فطری طریقہ سے اور نصیحت کے بغیر اس طرح دل ودماغ میں اتارا جائے کہ وہ اس کا تاثر تادیر محسوس کرتے رہیں۔ یہ کام آسان نہیں کافی مشکل ہے، یوں بھی بچوں کے لئے لکھنا آسان نہیں ہے، ان کو بہلاتے بہلاتے زندگی کی اہم باتیں بتا دینا ہر کسی کا کام نہیں ہے اور جو یہ مشکل کام کرنے کے قابل ہیں اور بچوں کے ادب میں زندگی کو بہتر بنانے والی اقدار کو شامل کر دیتے ہیں، ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ آج دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی مختلف تعصبات کی جو زہریلی ہوائیں چل رہی ہیں۔ ان کی زہرناکی سے نئی نسل کو اسی وقت محفوظ کیا جاسکتاہے جب سرپرست پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے بچوں کی ذہن سازی کا کام کریں اور ادیب وشاعر ان کو وہ ذہنی غذا فراہم کریں جو ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو، یہ کام اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اپنی اچھی وراثت بچوں میں منتقل کرنے کی فکر کی جائے، ادب کے ذریعہ سے ہی نہیں روز مرہ کی زندگی میں بھی مذکورہ قدروں کو پروان چڑھا کر، اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ بچوں کو ان کے سرپرست جیسا بنانا چاہتے ہیں، ویسا وہ خود بن کر دکھائیں، اسی وقت بچوں کے ادب میں بھی ان قدروں کی نمائندگی ہوسکے گی جو مطلوب ہے میں نے اس مضمون میں بچوں کے ادب سے زیادہ قدروں پر توجہ دی ہے کیونکہ یہی میرا مقصود ہے۔٭
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں