امام مقتدی سے،لیڈر عوام سے اور تخلیق کار قاری سے مایوس ہے
عبدالغفار صدیقی
گزشتہ ہفتہ ایک بڑے شاعر سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے قرآن مجید کا منظوم ترجمہ کرنا شروع کیا ہے۔کئی سورتوں کا بشمول پارہئ عم ترجمہ کرچکے ہیں۔ملاقات پر میں نے معلوم کیا کہ ترجمہ کا کام کہاں تک پہنچا؟کہنے لگے:۔”فی الحال بند ہے۔“ میں نے کہا کیوں بند کردیا؟ اس کے جواب میں موصوف نے بڑے افسردہ لہجے میں کہاکہ پڑھے گا کون؟آپ اردو کا حال نہیں دیکھ رہے ہیں۔ہماری نسلیں اردو سے ناواقف ہیں،میں محنت کروں گا،کوئی پڑھے گا نہیں تو کیا فائدہ ہے؟ان کے الفاظ میں درد تھا۔ایک ایسا درد جو ہر تخلیق کار کے اندر موجود ہے۔ اس درد کا احساس بھی ایک تخلیق کار ہی ہوسکتا ہے۔آج کے دور میں قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنا اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے جیسا ہے۔ یہ تکلیف جو ہمارے محترم کو شاعر کو ہے ملت کے ہر طبقے میں پائی جاتی ہے۔کسی مسجد کے امام یا عالم دین سے ملاقات کیجیے اور ان سے ملت کی دینی صورت حال پر گفتگو کیجیے تو وہ فرمائیں گے کہ بھائی آج کل کوئی کسی کا سنتا ہی کب ہے؟کسی سیاسی جماعت کے لیڈر سے بات کیجیے تو وہ بھی عوام کی شکایت کرے گا۔کیا واقعی ملت کی مجموعی صورت حال اتنی ہی مایوس کن ہیاور ہم صرف تبصرہ نگار بن کر رہ گئے ہیں۔
بقول حفیظؔ میرٹھی:
درد پر تبصرہ تو بہت ہوچکا
درد کو آپ محسوس بھی کیجیے
میں نے اپنے شاعر دوست سے عرض کیا کہ آپ اپنا کام کیجیے اوراس وقت تک کرتے رہیے جب تک ہاتھوں میں جنبش اور زبان میں قوت وطاقت ہے۔آج اگر آپ کی تخلیق کو پڑھنے والے نہیں ہیں تو ہوسکتا ہے پچاس سال بعد پیدا ہوجائیں۔آپ کے شہر میں نہیں ہیں تو دوسرے شہر میں ہوں گے۔اپنے ملک میں نہیں ہیں تو دیار غیر میں ملیں گے۔اردوزبان اب کسی ایک ملک کی زبان نہیں رہی ہے بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔ہر ملک میں اردو جاننے والے اور اردو بولنے موجود ہیں۔اس لیے کسی مایوسی کی ضرورت نہیں ہے۔آپ اللہ کی کتاب کا منظوم ترجمہ کررہے ہیں،یہ سعادت کی بات ہے۔یہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔یہ آپ کے لیے آخرت میں نجات کا سبب ہوگا۔ان شاء اللہ۔میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اس عمل سے رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں دریافت کرے گا۔تب آپ کے پاس کیا جواب ہوگا۔؟کیا وہاں یہ کہہ کر چھٹکارہ مل جائے گا کہ ہمارے شہر میں پڑھنے والے نہیں تھے اس لیے ہم نے لکھا نہیں۔اگر پلٹ کر یہ سوال کرلیا گیا کہ تم نے شہر میں پڑھنے والے پیدا کرنے کے لیے کیا کیا َ یا اس شہر سے ہجرت کیوں نہیں کی تو کیا جواب ہوگا؟موصوف نے وعدہ کیا کہ وہ ترجمہ کا کام دوبارہ شروع کریں گے۔سوال یہ ہے کہ ملت کا ہر درد مند یہی سوچ کر بیٹھاجائے گا کہ کوئی سننے اور سمجھنے والا نہیں ہے تو حالات میں سدھار کون کرے گا۔تاریکی کاشکوہ کرنے سے اجالا نہیں پھیلے گا۔روشنی تو شمع جلانے سے ہی ہوگی۔یہ شمع جلائے گا کون؟
تاریکیئ شب کا تو بہت شکوہ ہے ہم کو
اب دیکھنا یہ ہے کہ سحر کون کرے گا
بقول حفیظؔ میرٹھی:
درد پر تبصرہ تو بہت ہوچکا
درد کو آپ محسوس بھی کیجیے
میں نے اپنے شاعر دوست سے عرض کیا کہ آپ اپنا کام کیجیے اوراس وقت تک کرتے رہیے جب تک ہاتھوں میں جنبش اور زبان میں قوت وطاقت ہے۔آج اگر آپ کی تخلیق کو پڑھنے والے نہیں ہیں تو ہوسکتا ہے پچاس سال بعد پیدا ہوجائیں۔آپ کے شہر میں نہیں ہیں تو دوسرے شہر میں ہوں گے۔اپنے ملک میں نہیں ہیں تو دیار غیر میں ملیں گے۔اردوزبان اب کسی ایک ملک کی زبان نہیں رہی ہے بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔ہر ملک میں اردو جاننے والے اور اردو بولنے موجود ہیں۔اس لیے کسی مایوسی کی ضرورت نہیں ہے۔آپ اللہ کی کتاب کا منظوم ترجمہ کررہے ہیں،یہ سعادت کی بات ہے۔یہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔یہ آپ کے لیے آخرت میں نجات کا سبب ہوگا۔ان شاء اللہ۔میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ اس عمل سے رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں دریافت کرے گا۔تب آپ کے پاس کیا جواب ہوگا۔؟کیا وہاں یہ کہہ کر چھٹکارہ مل جائے گا کہ ہمارے شہر میں پڑھنے والے نہیں تھے اس لیے ہم نے لکھا نہیں۔اگر پلٹ کر یہ سوال کرلیا گیا کہ تم نے شہر میں پڑھنے والے پیدا کرنے کے لیے کیا کیا َ یا اس شہر سے ہجرت کیوں نہیں کی تو کیا جواب ہوگا؟موصوف نے وعدہ کیا کہ وہ ترجمہ کا کام دوبارہ شروع کریں گے۔سوال یہ ہے کہ ملت کا ہر درد مند یہی سوچ کر بیٹھاجائے گا کہ کوئی سننے اور سمجھنے والا نہیں ہے تو حالات میں سدھار کون کرے گا۔تاریکی کاشکوہ کرنے سے اجالا نہیں پھیلے گا۔روشنی تو شمع جلانے سے ہی ہوگی۔یہ شمع جلائے گا کون؟
تاریکیئ شب کا تو بہت شکوہ ہے ہم کو
اب دیکھنا یہ ہے کہ سحر کون کرے گا
جواب دیں