بنگلورو : کرناٹک حکومت کی جانب سے جعلی خبروں اور غلط معلومات کے خلاف مجوزہ قانون پر نظرثانی کا امکان ہے۔ ریاست کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی، پریانک کھرگے نے اشارہ دیا ہے کہ اس معاملے میں خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور محکمہ داخلہ کے ساتھ۔ مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔
وزیر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ چونکہ کچھ شقیں آئی ٹی ایکٹ کے دائرے میں آتی ہیں، اس لیے قانون کے نفاذ سے قبل متعلقہ محکموں کے ساتھ مشاورت ضروری ہے۔
کرناٹک غلط معلومات اور جعلی خبریں (ممانعت) ایکٹ کے مسودے کے تحت سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو 7 سال قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ حکومت خصوصی عدالت اور سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی بھی تجویز دے رہی ہے، جس کی خلاف ورزی پر یومیہ 25 ہزار روپے جرمانہ اور دو سال قید ہو سکتی ہے۔
لیکن اس مسودے میں "کنڑا و ثقافت کے وزیر” کو اتھارٹی کا سربراہ بنانے کی تجویز پر اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے مطابق یہ ذمہ داری آئی ٹی یا وزیر داخلہ کو دی جانی چاہیے تھی۔
اس مسودے پر آزادی اظہار کے علمبرداروں اور ڈیجیٹل حقوق کے گروپوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (IFF) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پر دوبارہ غور کرے۔ آلٹ نیوز کے شریک بانی پراتیک سنہا نے اسے "ایک اور سخت قانون” قرار دیا ہے، جس کا موازنہ UAPA اور TADA جیسے قوانین سے کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ حکومت پہلے ہی انفارمیشن ڈس آرڈر ٹیکلنگ یونٹ (IDTU) قائم کر چکی ہے، جس نے لوک سبھا انتخابات کے دوران 90 دن تک فیکٹ چیکنگ کی مہم چلائی تھی۔