جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،حکومت کے نشانے پر کیوں؟

ہندوستان میں اقلیتی اداروں کا وجود،سوالوں کے گھیرے میں 
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (نئی دہلی )مسلمانان ہند کے وہ ادارے ہیں، جنھیں خودمسلمانوں نے اپنے خون پسینے سے سینچا ہے۔یہ وہ عظیم مسلم ادارے ہیں جو، دنیا بھرمیں ہندوستانی مسلمانوں کی پہچان ہیں اور یہاں کے فارغین ، مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان درسگاہوں کا قیام، آئین ہندکی دفعہ 20کے تحت ہوا ہے، جس میں اقلیتوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں اپنے ادارے قائم کرسکتے ہیں اور انھیں چلاسکتے ہیں۔ حالانکہ آج ان تعلیم گاہوں کو تنازعات میں گھسیٹنے کی کوشش ہورہی ہے اور ان کے اقلیتی کردار پر سوال اٹھایا جارہا ہے۔ ملک کی حکومت اورحکمراں جماعت کی جانب سے خصوصی طور پر ،ان اداروں کے تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کبھی دلتوں کو ریزرویشن دینے کے بہانے، مسلمانوں اور دلتوں کو لڑانے کی سازش ہوتی ہے تو کبھی جناح کی تصویر کے بہانے مسلم یونیورسٹی کو ’’جناح پرست‘‘ ثابت کیا جاتا ہے۔ آئے دن علی گڑھ میں ہنگامہ کی سازشیں رچی جاتی ہیں اور فرقہ پرست، یونیورسٹی کی جانب جلوس لے کر بڑھ آتے ہیں۔ کبھی پولس کے ذریعے، طلبہ پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو کبھی حکومت، اقلیتی کردار کی دشمن بن کرکورٹ پہنچ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ادارے مسلم دشمنوں کے نشانے پر کیوں رہتے ہیں؟آخر کیوں انھیں تباہ وبرباد کرنے کی سازشیں رچی جاتی ہیں؟
اقلیتی کردار پر سوال کیوں؟
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، کا قیام مسلمانوں کے ذریعے ہوا تھا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے سب جانتے ہیں کہ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے کس محنت ومشقت کے ساتھ، اس کے لئے پیسے جمع کئے تھے۔سرسید کی تحریروں میں آج بھی اس کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کومسلمانوں کے ایک ایسے گروہ نے قائم کیا تھا جو ابتدا میں علی گڑھ تحریک سے منسلک تھا مگر بعد میں قوم پرست تحریک سے متاثر ہوکر الگ ہوگیا تھا۔ ان دونوں اداروں کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ مسلم ادارے ہیں اور ان کے جتنے بھی وائس چانسلر ہوئے سب مسلمان ہی تھے۔ ایسے میں یہ سوال پوری طرح سے نامناسب ہے کہ یہ اقلیتی ادارے ہیں یا نہیں؟ حالانکہ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے جہاں حکومت کی جانب سے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ یہ مسلم اقلیتی ادارے نہیں ہیں بلکہ سنٹرل گورنمنٹ کے ماتحت چلنے والی یونیورسٹیاں ہیں۔اس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے خاطر خواہ پیروی نہیں کی جارہی ہے۔بھارت کے بھگواوادیوں کی طرف سے ہمیشہ مسلم دشمنی کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ اگر وہ مسلم اقلیتی اداروں کو جنرل ادارہ ثابت کرنے کی کوشش کریں تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔تعجب تو اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے اس کے دفاع کی کوشش باالکل نہیں ہورہی ہے۔ 
دلت ریزرویشن کا شوشہ کیوں؟
قانون کے تحت کسی بھی اقلیتی ادارے میں ایس سی، ایس ٹی ریزرویشن لاگو نہیں ہوتا ہے۔ ریزرویشن صرف جنرل کیٹگری کے اداروں میں لاگو ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھگوا پریوار کی طرف سے مسلم یونیورسٹی میں ریزرویشن نافذ کئے جانے کا ایشو اٹھایا جارہا ہے،جس کا بس ایک مقصد ہے، مسلمانوں اور دلتوں کو آپس میں لڑانا۔ ان دنوں پورے ملک میں دلتوں پر مظالم کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان حالات سے بددل ہوکر دلت، حکومت کے خلاف لام بند ہورہے ہیں۔ عام انتخابات سامنے ہیں اور برسراقتدار طبقے کو لگتا ہے کہ مسلمان، پہلے ہی سے حکومت کے خلاف ہیں،اب دلتوں، کسانوں، مراٹھوں کا حکومت کے خلاف متحد ہونا ،اس کے لئے رخصتی کا پیغام ہے۔ ایسے میں مسلم یونیورسٹی میں ریزرویشن کے بہانے دلتوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار لانے کی کوشش، یقیناًایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ باالفرض اگر مسلم یونیورسٹی میں ایس سی ،ایس ٹی ریزرویشن نافذہوسکتا ہے اور اس میں کوئی قانونی اڑچن نہیں ہے تو حکومت کو آگے بڑھ کر بزور قوت، یہاں نافذ کرنا چاہئے، مگر وہ ایسا نہیں کر رہی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ،ایسا کرنا قانون کی رو سے غلط ہوگا۔ ویسے بھی جب، معاملہ کورٹ میں ہے تو حکومت کو انتظار کرناہی چاہئے۔ اس بیچ وہ اپنے گرگوں کے ذریعے ریزرویشن کا معاملہ اٹھاکر دیدہ ودانستہ سیاست کا موقع دے رہی ہے۔ اصل میں فرقہ پرست چاہتے یہی ہیں کہ مسلمان تعلیم نہ حاصل کریں، ورنہ سنگھ پریوار کی سازشوں کو سمجھنے لگیں گے۔ مسلمانوں کوتعلیم سے روکو ،ورنہ وہ دلتوں کی جگہ لینے سے انکار کردیں گے۔ اس قسم کی سازشیں بہت خاموشی کے ساتھ سنگھ پریوار کی طرف سے جاری ہیں جن کی کئی مثالیں حالیہ ایام میں دیکھنے کو ملی ہیں۔
حب الوطنی کا مرکزجامعہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، ایک قوم پرست ادارہ رہا ہے، جسے انگریزوں کی شدت سے مخالفت کرنے والے مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کی تعلیم کی غرض سے قائم کیا تھا۔ جامعہ ان نقلی دیش بھکتوں کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے جوبھارت کی تہذیبی تکثیریت میں یقین نہیں رکھتے۔ اس کے بانیوں میں سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین، مجاہد آزادی حکیم اجمل خان، سابق کانگریس صدر ڈاکٹر مختار انصاری اور معروف عالم دین مولانا محمودالحسن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ، انگریزوں کے شدید مخالف تھے لہٰذا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے الگ ہوکر جامعہ کے قیام کے لئے کوششیں شروع کی تھیں۔ان مسلم قائدین کو مہاتما گاندھی کی سرپرستی حاصل تھی۔ گاندھی جی ،جامعہ تشریف لاتے رہتے تھے اور پروفیسر محمد مجیب کے ایک مضمون کے مطابق وہ کہا کرتے تھے کہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک مسلم اور قومی درس گاہ ہے، سیاسی اختلافات کی فضا میں اپنے تہذیبی کردار کو باقی رکھتے ہوئے اسے اپنی راہ چلنے کی آزادی ہونی چاہئے، ایک موقع پر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کے کسی قریبی ساتھی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے’’ اسلامیہ‘‘ نکالنے کی تجویز رکھی ہے تو انھوں نے کہاکہ اگر ’’اسلامیہ‘‘ کا لفظ نکال دیا گیا تو انہیں اس ادارے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔‘‘
جامعہ کی عالمی شناخت
1920میں جامعہ کا قیام علی گڑھ میں ایک آزاد ادارے کے طور پر ہوا۔اس کے پانچ سال بعد اسے دہلی منتقل کردیا گیا اور پھراس کے تقریبا چالیس برسوں بعد اسے ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ پھر 1988 میں پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے ،اس کو باقاعدہ یونیورسٹی مان لیا گیا۔آج جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دنیا کا ایک معروف اور معتبرتعلیمی ادارہ ہے، جس میں دنیا بھر کے طلبہ پڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے فارغین بھی دنیا بھر میں اپنا نام اور مقام بنا رہے ہیں۔یہ ملک کی ایک مرکزی یونیورسٹی ہے اور ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں بارہویں نمبر پر ہے۔ عالمی درجہ بندی میں دنیا کی ایک ہزار یونیورسٹیوں میں جامعہ بھی شامل ہے اور ایشیا کی دوسو یونیورسٹیوں میں اسے شامل کیا گیا ہے۔
مسلم یونیورسٹی سے ،جامعہ تک 
جامعہ کا مقصد بھی اے ایم یو کی طرح مسلمانوں کی تعلیم تھا مگر آزادی کے بعد سے ہی ان دونوں اداروں کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں ۔کبھی ان کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی سازش ہوئی تو کبھی یہاں کے تعلیمی ماحول کو متاثر کرنے کی کوشش ہوئی۔ گزشتہ دنوں اے ایم یو میں پہلے جناح کی تصویر ہٹانے کے نام پر ہنگامہ کیا گیا اس کے بعد جامعہ میں بھی شرانگیزی کی گئی، حالانکہ جامعہ میں جناح کی کوئی تصویر بھی نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اس مسلم ادارے کو بدنام کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ ویسے بھی جہاں تک جناح کی تصویر کی بات ہے تو گجرات میں مہاتما گاندھی کے سابرمتی آشرم میں بھی لگی ہوئی ہے مگر اسے ہٹانے کے لئے سنگھ پریوار کی طرف سے کبھی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ ایک زمانے تک نریندر مودی گجرات کے وزیراعلیٰ رہے اور اب وزیراعظم ہیں مگر اس تصویر کو ہٹانے کی بات نہیں کی گئی مگر جناح کے نام پر پہلے اے ایم یو اور پھر جامعہ کو نشانہ بنانا شرانگیزی، مسلم دشمنی کے سواکچھ اور نہیں ہے۔ اصل میں ان تمام اداروں کو مودی سرکار میں نشانہ بنایا جارہا ہے، جہاں سے فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پہلے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی بھگوا وادیوں کے نشانے پر تھی کیونکہ یہاں کمیونسٹوں کا غلبہ رہا ہے اور اب مسلم ادارے نشانے پر ہیں۔ ان اداروں کو میڈیا کی سرخیوں میں لانا اور بدنام کرنے کا ایک بڑا مقصد، ملک کے اہم اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانا بھی ہے۔ یہ معاملے ایسے وقت میں اٹھائے گئے ہیں، جب پورے ملک سے ریپ کی وارداتیں سامنے آرہی تھیں اور ساری دنیا ،بھارتی حکومت پر تھو تھو کر رہی تھی۔ ریپ جیسے سنگین جرائم میں بھاجپا نیتاؤں کے نام آرہے تھے اور کہا جارہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ’’بلاتکاری جنتا پارٹی‘‘ بن گئی ہے۔نریندر مودی سے پوچھا جارہا تھا کہ اچھے دن کب آئینگے؟ پٹرول اور ڈیزل کے داموں میں ہوتا اضافہ کب رکے گا اور وعدے کے مطابق پندرہ پندرہ لاکھ روپئے کب، تمام ہندوستانیوں کے اکاؤنٹ میں آئینگے؟ ان سے کسانوں کے مسائل پر بھی سوال پوچھے جارہے تھے ،ایسے میں مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کے ایشو کو اٹھاکر ایک طرف تو اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف، مسلم اداروں کو بدنام کرنے کے پرانے ایجنڈے پر بھی عمل کیا گیا۔ 
اقلیتی کردار کا مسئلہ
علی گڑھ اور جامعہ کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے، ان اداروں کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی حکومت کی طرف سے سفارش۔ یوں تو کانگریس کی سرکاروں کی بھی، ان اداروں پر بری نظر تھی مگر جب سے مرکز میں بھگوا سرکارآئی ہے، تب سے ان اداروں کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی سازش تیز ہوگئی ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ خود ان اداروں میں بیٹھا ہوا ،ایک طبقہ بھی بھگوا سازش میں شریک ہے اور وہ ان اداروں کے اقلیتی کردار کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کی ایک مثال گزشتہ دنوں سامنے آئی ،جب کورٹ میں اس معاملے کو لے کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کا کوئی وکیل کھڑا ہی نہیں ہوا۔تشویش کی بات اس لئے بھی ہے کہ یونیورسٹی سے جڑے ہوئے اتنے اہم معاملے میں ادارہ نے اپنا کوئی وکیل عدالت نہیں بھیجا ۔واضح ہوکہ یونیورسٹی کے تعلق سے، ایک حلف نامہ، پچھلی حکومت نے داخل کیا تھا ۔ 2011 میں یو پی اے۔ 2حکومت کے دور میں وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کر کہا تھا کہ چونکہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات(این سی ایم ای آئی) کا فیصلہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک اقلیتی ادار ہ ہے لہٰذا حکومت بھی ایسا ہی مانتی ہے اور اس کے فیصلے کو تسلیم کرتی ہے۔اب موجودہ حکومت نے اس موقف کو تبدیل کردیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جامعہ ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے، اقلیتی ادارہ نہیں ہے، ایسے میں جامعہ کو پوری قوت کے ساتھ کورٹ میں اسے اقلیتی ادارہ ،ثابت کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے مگر اس کے ذمہ داران کس قدر سنجیدہ ہیں ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کورٹ میں اس کا کوئی وکیل ہی نہیں کھڑا ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عدالت نے سابقہ حکومت کے حلف نامہ کو رد کر دیا اور وزارت سے نیا حلف نامہ داخل کرنے کے لئے کہہ دیا۔ ظاہر ہے کہ جامعہ کے ذمہ داران کی اس تساہلی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ واضح رہے جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمدکورٹ کی تاریخ کے دوران لندن کے دورے پرتھے اور ان کی غیرموجودگی میں یہ سب ہوگیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب انھیں معلوم تھا کہ کورٹ میں کب تاریخ ہے تو انھوں نے مذکورہ تاریخ پر وکیل کو کیوں نہیں بھیجا تھا؟
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
30؍جولائی2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

پاکستان میں فوج کے تعاون سے عمران خاں کے اقتدار کی راہ ہموار

مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہی تو سیکولرزم ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے