ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
کانگریس پارٹی کے قومی صدر راہل گاندھی نے مسلم دانشوروں کی نششت میں یہ کیا کہدیا کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے؛ اس کی بعدتو نیوز چینلوں ؛ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں حشر پبا ہوگیا ؛ قومی سیاست میں ہلچل مچ گئی؛ مسند نشینوں کی کرسیاں لرزہ بر اندام ہونے لگیں؛ اس بیان کے بعد ایسا لگنے لگا کہ ملک میں اچانک ایسا طوفان آگیا جس نے تمام سیاسی جماعتوں کے وجود کو خطرہ میں ڈالدیا؛ مگر وہیں حکمراں جماعت کو ایک نایاب اور سنہرا موقع ہاتھ آگیا اور اس کو فورا ہندو مسلم رنگ میں رنگنےکی کاوش میں لگ گئی ؛ میڈیا نے حسب عادت اس کو اتنا بھیانک بناکر پیش کیا کہ اس وقت ملک کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ یہی سمجھا جانے لگا.
بات در اصل یہ ہیکہ حکمراں جماعت نے مسلمانوں کا خوف ملک کی اکثریت کے دلوں میں اس قدر بٹھا رکھا ہیکہ ہے؛ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کی حمایت کا اعلان کردے تو سمجھ لیجئے کہ اس جماعت نے گناہ عظیم کا ارتکاب کیاہے؛ جبکہ سچائی یہ ہیکہ ملک کا ہر طبقہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ آچکا ہے اور بری طرح کرب و درد محسوس کررہا ہے؛ افسوس تو میڈیا کی جانبداری پر بھی ہوتا ہیکہ آج ملک میں عوام؛ کسانوں؛ دلتوں تاجروں اور دیگر اقلیات کے اہم ترین بنیادی جو مسائل ہیں ان کو پیہم نظر انداز کیا جارہا ہے؛ عوام کے سامنے نان ایشوز کو ایشو بناکر پیش کرنے سے لگتا ہے ہیکہ ذرائع ابلاغ کے ادارے اپنے فرض اور ذمہ داری سے نظریں چرارہے ہیں؛ فضول مباحثے اور ڈبیٹ کے ذریعہ حکموت کے اشارہ پر بھولی بھالی جنتا کو گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؛ حالانکہ جمہوریت میں میڈیا کو چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے؛ تصور کیجئے اگر اتنے اہم شعبہ کا کردار مشکوک ہوجائے تو کیا جمہوری نظام کی بقاء اور اس کے دوام واستقرار پر سوالیہ نشان نہیں لگتا ہے؟
مگر اب تو سارا کھیل دولت کا ہے کسی نے ٹھیک ہی کہا ہیکہ دولت وطاقت کے ذریعہ ہر جائز وناجائز عمل کرایا جاسکتاہے؛ بہر حال یہ ایک الگ ایشو ہے؛ اس وقت گفتگو راہل گاندھی کے بیان پر کرنی ہے؛ سو اس سلسلہ میں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کے وقت میں ضرورت اس بات کی ہیکہ ملک کی ساجھی روایت کو مستحکم کیا جائے ؛ کیونکہ اب سیاست کی اہمیت وافادیت اور اس کی قدریں بدل چکی ہیں اب سیاستداں ملک کی سیکولر روایت کے محافظ کم بلکہ اقتدار کے حریص زیادہ ہیں؛ حکمراں جماعت نے 2014 میں جن دعووں اور وعدوں کے بل بوتے اقتدار تک پہنچی ہے؛ ان میں عوام کو یہ احساس دلانے کی بھی جسارت کی گئی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی محاذ ہندؤں کے خلاف ہیں؛ لھذا اگر ہندو کمیونٹی اور ہندو تہذیب وثقافت کی حفاظت کرنی ہے تو ضروری ہیکہ بی جے پی اور اس کے ہمنوا دلوں کو کامیاب کرنا پڑیگا؛ یہی راگ اب الاپا جارہا ہے اور 2019 کے لئے گزشتہ چار برسوں میں مسلمانوں کے خلاف خوب کام کیا گیا ہے؛ حکمراں جماعت نے پوری توانائی اسی پر صرف کی ہے ; اس لئے کوئی بھی ایسا موقع حکمراں جماعت ہاتھ سے نہیں جانے دیگی جو ہندو ووٹ کو متحد کرنے کا ہو ؛ راہل گاندھی نے گجرات کے اسمبلی الیکشن سے جس طرح بہتر کار کردگی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے اس نے حکمراں جماعت کو خوف زدہ کردیا ہے-
اگر ہم راہل گاندھی کے اس کے بعد کے بیانات پر نگاہ تدبر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ اب راہل گاندھی میں سیاسی شعور بالغ ہوچکا ہے اپنے اندر ؛ خود اعتمادی؛ شائستگی ؛ حاضر جوابی؛ ملی فکر اور مخالفین پر حملہ آور ہونے کا ہنر جیسے اوصاف پروان چڑھ چکے ہیں ؛ نیز عوام کا بھروسہ بھی جیتنے میں کانگریس پارٹی کے قومی صدر کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں؛ ادھر نریندر مودی کا سحر مسلسل روبہ زوال ہے اس کی طرف بعض نیوز چینل بھی اشارہ کررہے ہیں؛ اس لئے حکمراں جماعت خائف ہیکہ کہیں 2019 کا عام انتخاب ہاتھ سے نہ چلا جائے؛ ملک کے سیکولر طبقہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ اب اقتدار ایسے ہاتھوں میں جاناضروری ہے جو سیکولرزم پر یقین و ایمان رکھتے ہوں اور اس کےلئے عملی مظاہرہ بھی کیا ہو؛ راہل گاندھی کے بیان پر ہنگامہ آرائی کو ئی نئی بات نہیں بلکہ ان کے ہر بیان کو اچک لیا جاتاہے اور اس کو قومی مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتارہا ہے ؛
موجودہ تناظر میں ملک کے سیاسی منظرنامہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت حکمراں جماعت کے سامنے کئی طرح کی پیچیدگیاں ہیں خود بی جے پی میں کئی لیڈر ایسے ہیں جو حکومت کی پالیسی سے ناراض ہیں؛ مثلا بی جے پی کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی نے حکومت پر طنز کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں بالمیکی رامائن کے حوالہ سے” پاور پالیٹکس” مجلہ میں لکھا ہیکہ ” راجا تانا شاہ نہیں ہوسکتا ہے؛ اسے اپنے وزاراء؛ دانشوروں اور فوج کے سربراہان سے صلاح ومشورہ کرکے ہی پالیسی سازی کرنا چاہئے – آگے مزید کہا ہے کہ راجا کو اپنی عوام کو خود کے ڈر سے؛ ایک دوسرے کے ڈر اور ان چیزوں کے ڈر سے بچاکر رکھنا چاہئے جو غیر انسانی ہے؛ نیز راجا کو صلاح و مشورہ اور اختلاف رائے کو اہمیت دینا چاہئے – اتنا ہی نہیں جوشی نے یہ بھی لکھ ڈالا کہ مہابھارت کے مطابق ریاست کا اہم مقصد خوف سے پاک ماحول تیار کرنا ہے جس میں تشدد کا خوف بھی شامل ہے جب راجا غریبوں؛ بے گھروں اور بزرگوں کے آنسو پونچھ کر خوشحالی لاتا ہے تب یہ راج دھرم کہلاتا ہے ” ادھر لگاتار مودی کی معنویت بے اثر ہوتی دکھائی دیرہی ہے؛ وہیں حزب مخالف جماعتوں کا اتحاد حکمراں جماعت کیلئے بہت بڑا چیلینج ہے؛ ہندوستانی عوام کے دل و دماغ میں یہ بھی ابھی تک پیوست ہے کہ مودی سرکار نے جو وعدے کئے تھے وہ ابھی تک ایک افسانہ بن کر رہگئے ہیں؛ اس لئے کہیں نہ کہیں عوام میں یہ خواہش بار بار جنم لے رہی ہے کہ اب اقتدار میں ان جماعتوں کو لایا جائے جو پبلک سے کئے گئے وعدے پورے کرے –
ان حالات سے اندازہ ہوتا ہے ہیکہ حکمراں جماعت کے لئے دوبارہ حکومت سازی آسان نہیں ہے؛ مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ حکمراں جماعت اتنی آسانی سے اقتدار نہیں چھوڑے گی کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اگر حکومت ہاتھ سے گئی تو سمجھئے کہ تمام بدعنوانی اور مظلوموں کی فائلیں دوبارہ منظر عام پر لائی جائینگی اور ایک ایک گناہ کا حساب دینا ہوگا؛
آمدم برسر مطلب یہ ہیکہ ہندوستان جمہوری ملک ہے سیکولرزم پر ایمان و یقین رکھنا ہماری وطنی اور قومی ذمہ داری ہے لہذا ملک کے کسی ایک طبقہ کو خوش رکھنا اور دوسرے طبقہ پر مظالم کرنا یا ایسی پالیسی بنانا کہ وہ حاشیہ پر آجائیں ملک کی عظمت اور سالمیت کے لئے ٹھیک نہیں ہے؛ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ سوا چار برسوں میں یہ خوب دیکھنے کو ملا کہ ملک کی حکمراں جماعت نے ہندوستان کی مسلم اقلیت کو دبایا؛ ان کے کاروبار تباہ کئے اور سب سے اہم بات یہ ہیکہ ان کا سیاسی مستقبل بالکل ختم کرڈالا ہے یہی وجہ ہیکہ کوئی بھی حکمراں جماعت مسلمانوں کا تذکرہ کرنا تک پسند نہیں کررہی ہے؛ حالیہ دنوں میں کانگریس نے یہ جراُ ت کی اور مسلم دانشوروں سے ایک نششت میں یہ کہدیا کہ کانگریس مسلموں کی بھی پارٹی ہے تو کیا برا کردیا؛ مگر حکمراں جماعت کی تونیندیں حرام ہوگئیں اور فورا اس کو ہندو مسلم رنگ دے ڈالا.
میرا سوال ان لوگوں سے ہے جو بی جے پی کو ہندؤں کی پارٹی قرار دیتے ہیں تو کوئی بھی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ ملک میں دیگر طبقات بھی سکونت پذیر ہیں اس لئے کسی بھی سیاسی جماعت کو کسی ایک طبقہ کی نمائندگی کرنا ٹھیک نہیں ہے؛ بلکہ ملک کی سچی وفاداری یہی ہےکہ ملک کے ہر باشندے کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کیجائے؛ خواہ وہ کسی بھی مذہب؛ برادری یا سماج سے تعلق رکھتا ہو؛ کیونکہ ہمارے ملک کا آئین و قانون ہی سیکولرزم جیسے مقدس اصولوں پر مبنی ہے- مگر ہر سچی بات پر واویلا کرنے کی فرقہ پرست طاقتوں کی عادت بن گئی ہے آج راہل گاندھی کے بیان پر بھی ایسی طاقتیں شور مچارہی ہیں؛ ہندوستانی معاشرہ کو سوچنا ہوگا کہ آج ملک میں سیاست فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ہے مسلم.اقلیت کو لوگ ہر طرح سے حاشیہ پر لانے کی کاوش میں لگے ہوئے ہیں؛ دوسری بات یہ ہیکہ مسلمان ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں جنہوں نے ہر موقع ہر اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے؛ اس لئے کانگریس پارٹی کا یہ اعتراف کرنا کہ مسلموں کی پارٹی ہے کیا تردد ہے؛ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہر وہ پارٹی جو سیکولرزم پر ایمان رکھتی ہو وہ ملک کے ہر شہری کی پارٹی ہے ہندو مسلم کی تفریق کئے بغیر؛
جبکہ حکمراں جماعت نے نعرہ دیا سب کے ساتھ اور سب کے وکاس کا؛ اس کے بعد جب ملک میں حکومت بن جاتی ہے تو ان کے کارندے مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں یہ انکی دوغلی پالیسی پے جو قول اور فعل میں تضاد پیدا کرتی ہے – اس لئے آج ملک کی سیاست کا تقاضا یہ ہیکہ ایک ایسی سوچ اور فکر والی سیاست کو فروغ دیا جائے جو مذہب؛ ذات اور برادری سے الگ تھلگ ہو صرف اور صرف ترقی کے نام پر حکومت قائم.کیجائے ورنہ ہمارے ملک کا نوجوان ترقی کرنے کے بجائے پیچھے چلاجائے گا آج دنیا جب چاند پرکمندیں ڈال ری ہے افسوس اس بات کا ہیکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کو پکوڑے بیچ کر روزگار پیدا کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے؛ مذہبی تشدد کو بڑھادیکر ملک کی صدیوں پرانی تہذب کوہلاکت کے دہانے پر لیجایا جارہا ہے.
جواب دیں