ایران ۔ اسرائیل جنگ بندی کے باوجود لفظی جنگ کا سلسلہ جاری

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے بعد اب ایران اور امریکہ کے درمیان زبانی محاذ آرائی نے شدت اختیار کر لی ہے۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت اور تند و تیز بیانات دیے جا رہے ہیں، جس سے خطے میں ایک نئی کشیدگی جنم لے رہی ہے۔

اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خلاف دیے گئے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے خامنہ ای کو ’’ذلت آمیز موت‘‘ سے بچایا۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ اگر صدر ٹرمپ واقعی ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں ایران کے سپریم لیڈر کے خلاف نازیبا تبصرے بند کرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے بیانات خامنہ ای کے لاکھوں حامیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔

اپنے سخت بیان میں عباس عراقچی نے اسرائیل پر بھی طنز کرتے ہوئے کہا کہ عظیم اور طاقتور ایرانی قوم نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کے پاس ایرانی میزائل حملوں سے بچنے کے لیے ’ڈیڈی‘ کے پاس بھاگنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی قوم دھمکیوں اور توہین کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔

دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو ایک بار پھر سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران دوبارہ اپنا جوہری پروگرام شروع کرتا ہے تو امریکہ اس پر دوبارہ بمباری کرے گا۔ وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران یورینیم کو اس حد تک افزودہ کرتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار کے قریب پہنچ جائے تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے حملہ کریں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں کے دوران ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن کا آغاز 13 جون کو اسرائیلی حملے سے ہوا۔ اس کے جواب میں ایران نے بھی بھرپور کارروائی کی، اور 22 جون کو امریکہ بھی اس تنازعے میں شامل ہو گیا۔ بارہ دن کی لڑائی کے بعد ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی پر اتفاق کیا، لیکن اب امریکہ اور ایران کے بیانات اس عارضی سکون کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

ٹرمپ کی تجارتی جارحیت برقرار : ٹیرف کی ڈیڈ لائن ہماری مرضی سے طے ہوگی

منگلورو آر ٹی او میں مرسڈیز کی رجسٹریشن میں دھاندلی، تین اہلکار معطل