گجرات اور دہلی کے نتائج توقع کے عین مطابق ہیں

ہماچل نے دکھائی نئی راہ،مجلس اتحاد المسلمین کو اپنے طریقہ کار میں شفافیت لانا ہوگی

عبدالغفار صدیقی
ہماچل پردیش اور گجرات میں اسمبلی اور دہلی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج وہی آئے ہیں جن کی امید تھی اور جو ایگزٹ پول میں بتائے گئے تھے۔ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت تھی اس بار بھی اس کی حکومت قائم رہی یہ ملک کے لیے نیک شگون ہے۔یہ ہماچل پردیش کے رائے دہندگان کی اصابت رائے کو ثابت کرتا ہے۔انھوں نے ملک کے ناگفتہ بہ حالات میں کانگریس کو ووٹ دے کر پورے ملک کے رائے دہندگان کو ایک روشنی دکھائی ہے۔انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ ابھی سیکولرزم کو بچایا جاسکتا ہے۔جس ملک میں جمہوریت کا ہر ستون فرقہ پرستی کی زد میں آچکا ہو،جہاں ہر طرف زعفرانیت چھا چکی ہو،جہاں اظہار رائے پر قدغن ہوں،جہاں شاہ کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو ٹھوکا جارہا ہو،ان حالات میں ایک ریاست کی عوام نے ہمت و حوصلہ سے کام لے کر اپنی سابقہ حکومت پر اعتماد کیا یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان کسی بھی سیٹ پر فیصلہ کن نہ ہوں،وہ آبادی میں صرف ڈھائی فی صد اور رائے دہندگان میں دو فیصد سے بھی کم ہوں،جہاں اکثریت شری رام میں عقیدت رکھتی ہو، ایک ایسی ریاست میں رام کے جھوٹے بھکتوں کی کراری شکست نے گجرات کی فتح کے رنگ کو پھیکا کردیا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ خالص ہندو ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہار گئی ہے اور اسے ہندو بھائیوں نے ہی ہرایا ہے۔
گجرات میں بھی اگرمقابلہ صرف کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہوتا یہی نتیجے آسکتے تھے۔لیکن گجرات کا الیکشن زیادہ تر نشستوں پر سہ رخی تھا اور جہاں جہاں مجلس اتحاد المسلمین کا امیدوار تھا وہاں چار رخی ہوگیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ مسلم اکثریت والی دس سیٹوں میں سے آٹھ سیٹیں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملی ہیں۔سہ رخی مقابلہ کی وجہ سے سیکولر اور بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم ہوگئی جس کا فائدہ بی جے پی کو براہ راست ملا اور اس کی نشستیں پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں آگئیں۔ اس موقع پر سیکولرزم اور جمہوریت کی بقا کی تمنا کرنے والوں کو جائزہ لینا چاہئے کہ کیا بی جے پی کو فتح اس کی کامیاب طرز حکمرانی کی وجہ سے ملی ہے؟یا مودی جی کی جادوئی شخصیت کے سبب سے،یا  گجرات کی عوام نے یکساں سول کوڈ اور گجرات فساد کی یادیں تازہ کرنے کی وجہ سے بی جے پی کو سر آنکھوں پر بیٹھایا ہے اگر ان وجوہات سے ووٹ ملتا تو ہماچل پردیش میں بھی ملتا۔جب کہ ہماچل ریاست کی تاریخی روایت بھی یہ رہی ہے کہ وہ پانچ سال بعد حکومت بدل دیتے ہیں۔لیکن وہاں بی جے پی کی شکست کا سیدھا مطلب ہے کہ رائے دہندگان پر مندرجہ بالا وجوہات و اسباب کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ گجرات میں ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ  بی جے پی کوہوا۔
عام آدمی پارٹی جسے ہم نادانی میں سیکولر پارٹی سمجھ لیتے ہیں دراصل بی جے پی کی معاون پارٹی ہے۔سیاست کے میدان میں سنگھ نے ایمرجنسی کے بعد سے ہی اپنی منصوبہ بندی اس طرح کی تھی کہ ایک طرف جن سنگھ کو بی جے پی کی شکل میں کھڑا کیا اور دوسری طرف سنگھ کے سویم سیوکوں کوکانگریس سمیت دوسری سیاسی پارٹیوں داخل کیا جنھوں نے پارٹی کے ممبران کو اپنا ہمنوا بنایا اور پارٹی ذمہ داران سے ایسے فیصلے کرائے جس سے پارٹی کو نقصان پہنچا۔میرے اس دعوے کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔بڑے مقصد کے لیے نظریاتی پارٹیاں اور تنظیمیں بڑی قربانیاں دیتی رہی ہیں۔حکومت کا حصول اور ملک کو ہندو راشٹر بنانا وہ عظیم مقصد بلکہ سنگھ کے نزدیک وہ مقدس کام ہے جس کے لیے جان،مال کی قربانی دینا اور سازشیں کرکے مخالفین کو برباد کرنامعمولی بات ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ہزاروں سنگھ کارکنوں نے شادیاں نہیں کیں،جنھوں نے کیں  ان میں سے بھی کچھ چھوڑ کر چلے آئے ظاہر ہے ان کے لیے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوکر اپنا مقصد حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا جو کامیاب رہا۔تیسرا کام یہ کیا گیا کہ ہر ریاست میں کانگریس کا متبادل سامنے لایا گیا اور اس متبادل کو طاقت دی گئی۔عام آدمی پارٹی بھی اسی پلان کا حصہ ہے۔گجرات الیکشن میں کیجریوال صاحب کی انٹری صرف اسی حد تک تھی کہ ووٹرس کو گمراہ کردیا جائے اور کانگریس کا ووٹ شیئر کم کردیا جائے۔2017کے انتخابات میں کانگریس کو 41فیصد ووٹ ملا تھا،جب کہ اس بار صرف 27فیصد ہی ملا ہے اس لیے کہ 13فیصد ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملا ہے۔تجزیہ نگاروں کی یہ بھی رائے ہے کہ عام آدمی پارٹی نے جس طرح پنجاب کا الیکشن لڑا تھا اس طرح گجرات کا الیکشن نہیں لڑا۔کیجریوال صاحب کی پوری توجہ دہلی پر رہی اور بی جے پی اعلیٰ کمان کی ساری توجہ گجرات پر رہی۔ایسا لگتا ہے کہ دونوں پارٹیوں نے آپس میں یہ طے کرلیا تھا۔البتہ چونکانے والا نتیجہ رام پور شہر سیٹ پر ضمنی الیکشن کا رہا،جہاں سماج وادی پارٹی کا امید وار اس صورت میں بھی ہار گیاکہ وہاں کانگریس اور بی ایس پی کا امیدوار میدان میں نہیں تھا۔اس ہار نے محمد اعظم خان کی عزت اور طاقت پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔مسلم اکثریت سیٹ پر صرف یہ کہہ کر پلہ نہیں جھاڑا جاسکتا کہ وہاں سماج وادیوں کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔اگر اعظم خاں اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ ان کے حلقہ میں عوام ووٹ بھی نہیں دال سکتی تو انھیں سیاست سے کنارہ کش ہوجانا چاہئے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس شکست میں اعظم خان کے متکبرانہ رویہ کا بھی دخل ہے۔
گجرات اور دہلی کے نتائج مجلس اتحاد المسلمین کے بھی سبق آموز ہیں۔گجرات میں مسلم اکثریت کی 8سیٹیں مجلس کی وجہ سے ہی مسلمان ہار گئے۔اس لیے کہ مجلس کی وجہ سے وہاں چو طرفہ مقابلہ ہوگیا۔دونوں جگہ مجلس کا کھاتا نہیں کھلا۔اس سے پہلے اترپردیش میں بھی کھاتا نہیں کھلا تھا۔ان نتیجوں کا مجلس کے ذمہ داران کو تجزیہ کرنا چاہئے،انھیں صرف یہ سوچ کر کہ ہمارا ووٹ فیصد بڑھ گیا ہے مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ووٹ فیصد کا معمولی اضافہ آئندہ فتح کی ضمانت نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ گھٹ بھی سکتا ہے جیسا کہ کونگریس کے ساتھ گجرات میں ہوا ہے۔مجلس کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور کانگریس کو جو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے وہ ووٹ فیصد کے معمولی اضافے سے کئی گنا زیادہ بڑا نقصان ہے۔میری رائے ہے کہ مجلس کو تلنگانہ پر ہی اپنی توجہ فوکس کرنا چاہئے اور دوسری ریاستوں میں مسلمانوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی الگ سے بنانا چاہئے۔
مجلس اتحاد المسلمین پر پیسہ لے کر ٹکٹ دینے کے الزامات بھی لگ رہے ہیں۔دہلی میں تین اور چار لاکھ روپے لے کر ٹکٹ دیے گئے ہیں،اس سے پہلے اتر پردیش میں دس لاکھ روپے لیے گئے تھے۔یہ صورت حال نیک دل اورانصاف پسندمسلمانوں کو تکلیف پہنچانے والی ہے۔دہلی میں ایک امیدوار نے تھانہ حوض خاص میں شکایت درج کرائی ہے اور ہندوستان لائیو سوشل میڈیا کے چینل پر لائیو بیان دیا ہے کہ مجلس کے ریاستی ذمہ داران نے یہ کہہ کر پیسہ لیا تھا کہ بیرسٹر صاحب کی سبھا کرائی جائے گی۔اب جب کہ ان کی سبھا نہیں ہوئی تو پیسہ واپس کرنا چاہئے،لیکن ریاستی ذمہ داران پیسہ واپس نہیں کررہے ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ پیسہ لینے کے تعلق سے صدر مجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کا کیا اصول ہے،میں اتنا جانتا ہوں کہ اس طرح کے الزامات سے ان کی تصویر خراب ہورہی ہے اور پارٹی کے مخلص کارکنان کے حوصلے پست ہورہے ہیں۔ہر وقت آئین کی دہائی دینے والے،اپنی قیادت اپنی قیادت کا راگ الاپنے والے ہی جب اپنی جماعت کے مخلص کارکنان کو کنارے لگادیں گے اور پیسہ لے کر ٹکٹ فروخت کریں گے تو پھر قوم کس پر بھروسہ کرے گی۔اے آئی ایم آئی ایم کو اپنے تنظیمی معاملات میں شفافیت لانا چاہئے۔اپنے کیڈر کی تربیت کرنا چاہئے۔اپنے ذمہ داران کا احتساب کرنا چاہئے۔ایسا نہ ہو کہ پارٹی اس قدر بدنام ہوجائے کہ حیدرآباد میں بھی پارٹی کے پاؤں اکھڑ جائیں۔
ان حالات میں سب سے زیادہ پریشانی مسلمان ووٹرس کو ہے کہ وہ کس پر بھروسہ کریں اور کس پر نہ کریں۔ابھی دہلی میں کانگریس کے ٹکٹ پر جیتنے والے کارپوریٹرس میں سے دو کارپوریٹرس نے چوبیس گھنٹے میں ہی دل بدل کر کانگریس چھوڑ کر عآپ جوائن کرلی تھی،جس پر ووٹرس نے ہنگامہ کیا اور انھیں واپس آنا پڑا۔ظاہر ہے ووٹرس نے اپنا ووٹ کانگریس کو دیا تھا اب اگر جیتنے کے بعد کوئی کانگریس کو چھوڑ کر اسی پارٹی میں چلاجائے جس کے خلاف ووٹ دیا گیا تھا تو یہ رائے دہندگان کے ساتھ کھلا ہو ادھوکا ہے۔میں مصطفےٰ آباد دہلی کے عوام کو مبارکباد دیتا ہوں اورہندوستانی عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی دل بدلنے والوں کا جلوس نکالیں اور پتلہ پھونکیں اور انھیں دَل بدلنے روکیں۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر کسی حلقہ کی عوام بیدار ہو تو اپنے نیتا کو سیدھا کرسکتی ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

مغربی بنگال کی جیلیں مسلم قیدیوں کا مقتل کیوں بن رہی ہیں؟

بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے