ٹی.وی. میں چند سکنڈکے اشتہار کے لیے کروڑو روپئے خرچ ہوتے ہیں۔وہیں محلوں میں پھیری والے اپنے سودوں کی خوبی خود ہی آواز لگا کر بیان کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ ان پھیری والوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے اب ان کی جگہ گمٹیوں نے لے رکھی ہے۔ان گمٹیوں میں بکنے والے سامان سے متعلق جو عبارتیں لکھی جاتی ہیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ کچھ گمٹیوں عبارتوں سے آپ بھی محظوظ ہوں:
ایک گمٹی پر لکھا تھا ’’ یہاں کنوارے مرغوں کا گوشت ملتا ہے‘‘ ۔ایک دوسری گمٹی پر لکھا تھا’’مرغ کے اسپےئر پارٹس: لیگ پیس، سینہ، چکن چاپ، قیمہ، گردن وغیرہ ملتے ہیں‘‘۔ پاس میں ہی ایک دوسری گمٹی پر لکھا تھا’’مرکز اصلاح زلف‘‘، قریب جا کر دیکھا تو پتہ یہ چلا کہ ایک نائی بھائی کسی کے بال کتر رہے ہیں۔ایک جگہ دیوال پر لکھا تھا’’آپ یہاں کوڑا نہ پھینکیں۔۔۔ شکریہ۔۔۔۔کوئی اُلّو کا پٹھا پہلے ہی پھینک گیا ہے‘‘۔کپڑے کی ایک دوکان پر ایک بورڈ پرلگاتھا’’باتوں باتوں میں تیار کفن دستیاب‘‘۔
ایک تھری وہیلر کے پیچھے پردے پر 786کے نیچے لکھا دیا’ہارن آہستہ بجائیں، قوم سو رہی ہیں‘۔کسی عمارت میں یہ لفٹوں والے حصہ میں یہ عبارت بھی توجہ کا مرکز تھی کہ’’لفٹ میں داخل ہونے سے پہلے تسلّی کر لیں کہ لفٹ موجود بھی ہے یا نہیں ایسا نہ ہو کہ آپ لفٹ کے بغیر نیچے پہنچ جائیں‘‘۔ایک مکان کی دیوال پر لکھا تھا ’’یہاں کچرا ڈالنا منع ہے، جس دن دیکھ لیا حساب برابر کر دوں گا‘‘۔
’لپٹن چائے کا اشتہار‘بھی بڑا دلچسپ نکلا’ کسی کسان کے پاس ۱۷؍ بھیڑیں ہیں اگر ۹؍ کے علاوہ سب مر جائیں تو کتنی بھیڑیں بچیں گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الجھ گئے نہ؟۔۔۔پےءں ’لپٹن چائے‘ اور ذہن کو صاف کریں۔’کمال بیوٹی پارلر‘ : فِشل،تھریڈنگ ، پلکنگ،بلیچنگ، کٹنگ، پارٹی میک اپ، کے علاوہ بہترین تسلّی بخش دلہن کے ساتھ ایک لڑکی فری ۔ایک چائے کی دوکان پر لکھا تھا’’ادرک والی مسالے دار چائے‘‘ ۔کسی نے پوچھا ’ادرک ڈالتے بھی ہو؟ یا ایسے ہی لکھ دیا ہے؟۔ چائے والے نے تھوڑا ناراضگی سے کہا’’ہر چائے والا’پھینکو‘ نہیں ہوتا‘‘۔ (بشکریہ فیس بُک)
بسوں، ٹرکوں پر بھی بڑے دلچسپ نعرے لکھے ہوتے ہیں۔ ایک بس کے پیچھے کی طرف لکھا تھا ’ہارن پلیز(Ho please) اور اسی کی سامنے لکھا تھا ’پھر ملیں گے‘۔ایک صاحب کو انگریزی نہیں آتی تھی لیکن بولنے کا شوق تھا۔جب انھوں نے ’ہارن پلیز‘ کے سامنے ’پھر ملیں گے‘ لکھاہوا دیکھا تو انہوں نے فوراً مطلب نکال لیا کہ’ہارن پلیز‘ کے معنی ’پھر ملیں گے ‘ہوتا ہے۔اسی لیے جب وہ کسی سے ملتے تھے تو رخصت ہوتے وقت ’ہارن پلیز‘ کہا کرتے تھے۔
ایک دِن مرزا چھکّن بھائی بڑے پریشان حال اور گھبرائے ہوئے راستے میں ملے اور ملتے ہی لپٹ گئے۔میں نے خیریت پوچھی تو بتایا’ٹرک کے نیچے آتے آتے بچ گیا‘۔میں نے پوچھا چوٹ کہاں آئی بولے ’چوٹ کہیں نہیں آئی‘۔ میں نے کہا تو پھر کیوں پریشان ہو۔وہ اُسی گھبراہٹ کے عالم میں بولے پریشان میں اس لیے ہوں کہ ٹرک کے پیچھے لکھا تھا ’پھر ملیں گے‘۔
گمٹیوں اور ٹرک کے ماحو ل سے تھوڑا باہر نکلتے ہیں اور پچھلی حکومت کے دور میں منہگائی پر ایک نظر ڈالتے ہیں اوراس وقت ۸؍روپئے کلو آٹا،۵۵؍روپئے کلو دال اور۲۲؍روپئے کلو چاول تھا۔اس مہنگائی کو دور کرنے کے لیے آپ کو یاد ہوگا ایک لال کرشن اڈوانی جی ہوا کرتے تھے جنھوں نے بھارت کے بھائی چارے کو چرنے کی پہل کی تھی اور پورے ملک کو رتھ پر بیٹھ کر درشن دیے تھے، آج سڑک کے کنارے بیٹھے’پتھ پردرشن‘ کرا رہے ہیں۔وہی ایڈوانی جی اور انہیں ایڈوانی کے ساتھ میں بیٹھنے والے ’مرلی منوہر جوشی‘ اور موجودہ وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ اور ہیما مالنی اپنی منڈلی کے ساتھ سڑک پر ، اناجوں کی قیمت کا ایپرن پہن کر، یہ نعرے لگاتے گھوم رہے تھے’مہنگائی ہٹاؤ یا گدّی چھوڑو‘۔ آج کل یہ سب روزگارسے لگے ہوئے ہیں اس لیے مہنگائی کی کوئی فکر نہیں۔گھر چلانے والی پھوہڑ گرہستن کی طرح دیش اس طرح چلا رہے ہیں کہ سو کروڑ روپئے کی سبسیڈی ختم کرنے کے لیے ۲۵۰ کروڑ روپئے اشتہار بازی میں خرچ کررہے ہیں۔صفائی کے سلسلے میں ۲۵۰ کروڑ روپئے پبلسٹی میں خرچ ہوئے۔لیکن دہلی کے صفائی مزدور وں کی سالانہ تنخواہ کے لیے ۳۵ کروڑ ان کے پاس نہیں ہیں۔یوگا کے لیے تو پچاس کروڑ تھے اور ہریانہ کے اسکولوں میں رام دیو کی پتانجلی کو۷۰۰؍کروڑدیا جا سکتا ہے مگر’پراتھمک شکشا‘ کے بجٹ میں ۲۰؍فیصد کٹوتی کر لی جاتی ہے۔
مہاراشٹر کو شیو سینا نے اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔حد تو یہ ہے کہ اپنی عمارت پر ایک پوسٹر لگا رکھا ہے جس میں بال ٹھاکرے مہاراج کا فوٹو بنا ہے اورمودی جی ان کے آگے ہاتھ جوڑے سر جھکائے ہوئے کھڑے ہیں۔اسی طرح کا ایک پوسٹر دادر میں بھی لگایا گیا تھا۔پہلے تو ان پوسٹروں کو پولیس نے ہٹایا لیکن بعد میں شیو سینا کے سینکوں نے پھر لگا دیا۔ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ’’ آپ وہ دن بھول گئے جب شیو سینا کے سربراہ(بال ٹھاکرے) کے آگے جھکا کرتے تھے‘‘۔ ٹھاکرے جی کی موت ۱۷؍نومبر ۲۰۱۲ء میں ہوئی۔مودی جی اُس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے اب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔کم سے کم چار سال پرانا فوٹو آج دکھانے کا مقصد تو یہی ہو سکتا ہے’ٹھاکرے جی تو اب ہیں نہیں لیکن مودی جی کی حیثیت شیو سینا کے سامنے وہی چار سال پرانی والی ہے۔
مہاراشٹر میں بی.جے.پی. اور شیو سینا کی مخلوط حکومت ہے،بی.جے.پی.کے پاس اتنے ممبران ہیں کہ وہ چاہے تواپنے بل پر حکومت بنا سکتی ہے لیکن بی.جے.پی.نے شیو سینا کو حکومت میں شامل کر رکھا ہے مگر شیو سینا اپنی ہرکتوں سے باز نہیں آ رہی ہے اسی وجہ سے مہاراشٹر میں لاقانونیت شباب پر ہے۔جنوری سے اب تک ۱۵۰۰؍ ریپ کے معاملات درج ہوئے ہیں۔ اپرادھ کی در میں وکاس ہو رہا ہے اور دنگائی بھی خوب ہاتھ پیر نکال رہے ہیں۔ مہنگائی کے وکاس پر تو قربان ہونے کو جی چاہتا ہے اور نہ بھی جی چاہے تو بھی مہنگائ کا اگر یہی حال رہا تو قربان ہو ہی جائیں گے۔۔۔۔پھر کوئی دوسراقربان ہوگا۔۔۔۔۔اور پھرکسی اورکا نمبر آئے گا اسطرح سے قربان ہونے والے لوگوں کا بھی وکاس شروع ہو جائے گا اور پھر بھارت میں وکاس کا سونامی آ جائے گا۔
جواب دیں