نئی دہلی: امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ٹرمپ نے سعودی عرب میں ایک عوامی تقریب کے دوران دعویٰ کیا کہ ان کے انتظامیہ نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کا خطرہ ٹال دیا۔ اس بیان کے بعد کانگریس پارٹی نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے سخت سوالات کیے ہیں۔
کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’’کچھ دن پہلے ہمیں پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کی اطلاع امریکہ کے صدر سے ملی تھی۔ اب، سعودی عرب میں ایک عوامی تقریب کے دوران ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ہندوستان کو جنگ بندی کے لیے پابندیوں اور تجارتی سودوں کی دھمکی اور لالچ کے ذریعے مجبور کیا۔‘‘
جے رام رمیش نے مزید سوال اٹھایا، ’’اس انکشاف پر وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، جو عام طور پر ہر موضوع پر جارحانہ موقف رکھتے ہیں، کیوں خاموش ہیں؟ کیا انہوں نے واقعی امریکی دباؤ کے آگے جھک کر ہندوستان کے قومی سلامتی مفادات کو گروی رکھ دیا؟‘‘
انہوں نے طنز کرتے ہوئے لکھا، ’’امریکی پاپا نے وار رکوا دی کیا؟‘‘
خیال رہے کہ 22 اپریل کو جموں و کشمیر کے پہلگام میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 26 افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح شامل تھے۔ اس کے بعد ہندوستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ’آپریشن سندور‘ کے تحت پاکستان اور اس کے زیر قبضہ کشمیر میں کئی دہشت گرد ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
دونوں ممالک کے درمیان 10 مئی کو سیز فائر پر رضامندی ظاہر کی گئی۔ حکومت ہند کے مطابق پاکستان کے ڈی جی ایم او کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا۔
تاہم، اب جب کہ ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ سب ان کی مداخلت اور دباؤ کا نتیجہ تھا، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ ہندوستان نے خودمختاری کے دعوے کے باوجود اس فیصلے میں خود کیا کردار ادا کیا؟ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر واقعی ہندوستان نے کسی بین الاقوامی دباؤ میں فیصلہ کیا ہے، تو یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ حکومت نے قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟
حکومتی سطح پر ابھی تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن اپوزیشن اس بیان کو لے کر حکومت کو گھیرنے میں مصروف ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی یا مداخلت کا دعویٰ کیا ہو، تاہم اس بار انہوں نے براہِ راست ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کی بات کی ہے، جو ایک سنجیدہ سفارتی معاملہ بن سکتا ہے۔
قومی آواز کے شکریہ کے ساتھ