نئی دہلی : بٹلہ ہاؤس میں مجوزہ انہدامی کارروائی کے خلاف عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان کی طرف سے دائر مفاد عامہ کی عرضی کو دہلی ہائی کورٹ نے ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ایسی کارروائیوں کے خلاف درخواست براہ راست متاثرین کی طرف سے ہونی چاہیے، نہ کہ کسی تیسرے فرد کے ذریعے۔
ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ، جس میں جسٹس گریش کٹھپالیا اور جسٹس تیجس کریا شامل تھے، نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چونکہ امانت اللہ خان خود متاثرہ فریق نہیں ہیں، اس لیے وہ اس معاملے کو مفاد عامہ کی صورت میں عدالت میں نہیں لا سکتے۔ عدالت نے متاثرین کو ہدایت دی کہ وہ آئندہ تین دنوں کے اندر متعلقہ حکام کے سامنے اپنی عرضیاں پیش کریں۔
امانت اللہ خان کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل سلمان خورشید نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے، اور جن مکانات کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں وہ خسرہ نمبر 279 کے دائرے میں نہیں آتے۔ انہوں نے یہ نوٹس عمومی اور غیر ذاتی نوعیت کے قرار دیے، جن کے باعث متاثرین کو مؤثر طریقے سے صفائی کا موقع نہیں ملا۔
خورشید نے عدالت سے درخواست کی کہ اگر عرضی کو مفاد عامہ کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا تو اسے رٹ پٹیشن کی شکل میں مناسب بنچ کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے انہدامی کارروائی پر کم از کم سات دن کی مہلت دینے کی اپیل کی، تاکہ متاثرین کو مناسب قانونی چارہ جوئی کا وقت مل سکے، تاہم عدالت نے یہ درخواست بھی مسترد کر دی۔
ڈی ڈی اے کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ بٹلہ ہاؤس میں انہدامی کارروائی سپریم کورٹ کے 7 مئی کے حکم کی روشنی میں کی جا رہی ہے، جس کے تحت 26 مئی کو 15 دن کی مہلت کے ساتھ کئی عمارتوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ ڈی ڈی اے کے مطابق جن عمارتوں کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے وہ خسرہ نمبر 279 کے اندر واقع ہیں۔
عدالت نے سماعت کے دوران اس امر کا بھی نوٹس لیا کہ کچھ متاثرین پہلے ہی ہائی کورٹ سے رجوع کر چکے ہیں اور انہیں جزوی ریلیف بھی مل چکی ہے۔ ایسے میں عدالت نے سوال اٹھایا کہ جب اصل فریق پہلے سے موجود ہیں تو پھر یہ معاملہ مفاد عامہ کی عرضی کے تحت کیسے سنا جا سکتا ہے؟
امانت اللہ خان نے کہا کہ وہ ان شہریوں کی نمائندگی کر رہے ہیں جو خود عدالت جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، تاہم عدالت نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عدالت کا مؤقف تھا کہ ہر فرد کو خود اپنا قانونی دفاع کرنا ہوگا اور اگر ڈی ڈی اے واقعی سپریم کورٹ کے احکام کی خلاف ورزی کر رہا ہے، تو درخواست گزار کو اس فورم سے رجوع کرنا چاہیے۔