بصیرت تو سلامت ہے

کیمپا ڈاؤن میں نماز ظہر سے فارغ ہوئے، ہماری اگلی منزل ہے سدارہ (Cedara)، جہاں مفتی عبد اللہ کاپودروی علیہ الرحمۃ کے فیض یافتہ مولانا حسن مرچی کے یکتائے زمانہ اور مشہور عالم مدرسۃ النور للمکفوفین کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کرنی ہیں اور ایمان کو بھی تازہ کرنا ہے، حوصلوں کو جلا بخشنی ہے اور خداوند عالم کے عجائبات قدرت کا مشاہدہ بھی کرنا ہے۔

ملیشیا، جنوبی افریقہ، بوٹسوانہ، صومالیہ، ایتھوپیا، تنزانیہ، ملاوی وغیرہ بیس ممالک کے ساٹھ نابینا طلبہ۔ جن کی تعلیم وتربیت کا انوکھا اور منفرد انتظام، تعجب صرف ان کی تعلیم وتربیت پر نہیں بلکہ ایک منفرد اور قابل رشک نظام پر، جہاں تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ان کی تفریح طبع اور کھیلوں کا بھی اہتمام ہے، ریاضت بدنی کے لیے جمنازیم بھی ہے، کرکٹ اور والی بال کا گیم بھی۔

جہاں سے گزشتہ چالیس سالوں میں بے شمار نابینا طلبہ فارغ ہوکر ائمہ بنے، مدرس بنے، دین کی خدمت کرنے والے بنے، مکاتب اور مدارس قائم کرنے والے بنے اور پتہ نہیں کیا کچھ بنے، اس ایک شمع سے پتہ نہیں کتنی سیکڑوں ہزاروں شمعیں فروزاں ہوئیں، دنیا بھر میں شاخیں بنیں۔ اس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کے ذمے دار اس کو بتانا چاہتے ہیں، خود اس وقت اس کی بیس شاخیں متعدد ممالک میں سرگرم عمل ہیں۔ یہاں تو بہت ہی محدود کوٹا سسٹم ہے، اور یہ چیز بھی تعلیم وتربیت کے لیے کس قدر مؤثر ہے، نابینا افراد کے لیے کام کس قدر کارِ دشوار ہے، ان سب باتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، پھر بڑی بات یہ کہ یہاں ان نابینا علمائے کرام کی شادی کی فکریں بھی کی جاتی ہیں، ان کے جوڑے بنائے جاتے ہیں، اس کی محنت ہوتی ہے، ترغیب ہوتی ہے۔

مولانا حسن مرچی واقعی ڈھیروں مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے بصارت سے محروم افراد کے لیے بصیرت کی ایک عظیم الشان کارگاہ مہیا کی۔ رب کریم ہی ان کو بے پناہ اجر سے نوازے گا۔ ان کے اجر کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔ اس دنیا میں تو واقعی ان خدمات کا بدلہ نہیں دیا جاسکتا۔

مولانا نے بڑی محبت کا معاملہ کیا، اہل بھٹکل اور اہل ندوہ، بالخصوص عم محترم مولانا عبد العزیز خلیفہ ندوی صاحب سے عقیدت اور اپنے تعلق کا اظہار کیا، نیز ندوے کے لیے ان کی خدمات کو سراہا اور مفکر اسلام اور دیگر اکابر ندوہ سے بھی اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ اہل بھٹکل کے انداز ہی میں کھانا بناکر ہمیں کھلایا، اور اس سے بڑھ کر روح کی تسکین کے لیے دین کی بابرکت محفل سجائی، واہ، کیا روح پرور اور ایمان افروز منظر تھا، آنکھیں اشکبار تھیں اور دل رب کریم کی بے انتہا نعمتوں پر امتنان وتشکر کے جذبات سے لبریز، جہاں ان نابینا طلبہ نے قرآن وحدیث کے گہرپارے لٹائے، ملیشیا اور بوٹسوانہ کے طلبہ نے تلاوت قرآن سے دلوں کو گرمایا، ایتھوپیا کے طالب علم نے ترجمۂ قرآن کے جواہر بکھیرے، صومالیہ اور تنزانیہ کے نمائندوں نے ریاض الصالحین کی سیر کرائی، ایک صومالی طالب علم نے صحیح بخاری کے گلشن سے خوشہ چینی کا موقع فراہم کیا، ملاوی نے تقریر کرکے بتایا کہ ہم کس طرح حفظ کرتے ہیں اور موبائل سے سن کر ایک ایک چیز کس طرح یاد کرتے ہیں۔ مولانا موسیٰ نے ان طلبہ سے انگریزی میں خطاب کیا اور ان کو مبارک باد دی۔

ان طلبہ کا رہائشی نظام بھی دیکھا اور مطبخ پہنچ کر کھانے کا نظم بھی اور سب سے بڑھ کر ان کی عمارتوں کے حسن انتظام اور بیت الخلا کی صفائی کو دیکھ کر واقعی رشک آیا کہ ان عزیز طلبہ کی آنکھیں گو نور سے محروم ہیں مگر دل کس قدر ذوقِ جمال سے معمور اور بصیرت سے بھرپور ہیں، بے بال وپر ہیں، مگر عزائم اور حوصلوں کی اڑان دیکھیے۔ گو ان آنکھوں میں ظاہری رونق دیکھنے کی تو صلاحیت نہیں مگر وہ سلیقہ اور ہنر رکھتے ہیں کہ دنیا والوں کی نگاہوں کو رونق بخش سکتے ہیں۔

سفرنامہ جنوبی افریقہ 13

سخنؔ حجازی۔ سدارہ سے بینونی کے راستے میں۔ چودہ اکتوبر۔2024

«
»

ٹرمپ نے غزہ اور دوسری جگہ جاری جنگوں کے متعلق اپنے فاتحانہ خطاب میں کیا کہا ؟ جانیے یہاں!

کیا سنجولی مسجد کی تین منزلوں کو بچانے کی کوشش ہوپائے گی کامیاب ! ہائی کورٹ پہونچا معاملہ