تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرُزے

یہی وجہ ہے کہ سہارن پور سے پارلیمنٹ کے لئے کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کا وہ بھاشن کھودکر نکالا گیا جو چھ مہینے پہلے انہوں نے دیا تھا اور وہ الیکشن کے امیدوار نہیں تھے لیکن ان کا نام عمران مسعود تھا وہ مسلمان تھے اور کانگریس کے امیدوار تھے لہٰذا انہیں اُسی پرانے بھاشن کے الزام میں رات کے دو بجے دیوبند سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور دس دن کے بعد جب ان کا الیکشن خراب ہوگیا تب ضمانت دی گئی لیکن شری امت شاہ نے جو بھڑکاؤ بھاشن دیا وہ انتخابی مہم کے دوران دیا جسے اب کم از کم 120 دن ہوگئے ہوں گے لیکن پولیس نے نہ ایف آئی آر درج کی نہ گرفتاری کی ہمت کی بلکہ چارج شیٹ تیار کر کے عدالت میں پیش کردی جس کا مطلب یہ تھا کہ حضور والا ہماری تو یہ ہمت نہیں ہے کہ شاہ ہند کے سرپرست کو گرفتار کریں آپ ہی حکم دے دیں کہ وہ تشریف لے آئیں۔
آج کی خبر ہے کہ عدالت نے وہ چارج شیٹ پولیس کے منھ پر پھینک دی اور کہا کہ نہ ایف آئی آر نہ گرفتاری اور نہ دفعہ 188 کے لئے مجسٹریٹ کی اجازت؟ اب پولیس نے یہ کہہ کر منھ سے پسینہ پونچھا ہے کہ وہ نئی چارج شیٹ داخل کرسکتی ہے۔ گذرے ہوئے پندرہ دنوں میں ایک اور بھگت ہیں جو گورکھ پور سے قدم نکالتے ہیں تو زہر تھوکتے ہوئے چلتے ہیں وہ پرانے ممبر پارلیمنٹ ہیں اس لئے قانون کو ٹھوکروں سے مارتے ہوئے چلتے ہیں۔ انہیں امت شاہ نے اترپردیش کے ضمنی الیکشن میں زہرافشانی کی خدمت سونپی تھی جو انہوں نے ایسی ہی انجام دی جیسی ان سے اُمید تھی۔ اس دوران الیکشن کمیشن بھی گیدڑ بھپکیاں دیتا رہا لیکن وہ اپنا ہی راگ الاپتے رہے اور انتہا یہ ہے کہ ان کے لئے ان کے چیلوں نے 10 ستمبر کو منشی پلیا پر تقریر کی اجازت مانگی جو انتظامیہ نے نہیں دی۔ انہوں نے اس حکم کو بھی ٹھوکر ماری اور منشی پلیا آکر ایسا ہی بھڑکاؤ بھاشن دیا جس کے لئے وہ جانے جاتے ہیں لیکن وہ سنیاسی تھے یوگی تھے اور بی جے پی کے ایم پی تھے اس لئے ان کو پوری تقریر کرنے دی گئی وہ پولیس کو گالیاں دیتے رہے اسے بھی سنتی رہی لیکن اتنا دم نہ دکھا سکی کہ اس طرح بند کردیتی جیسے کبھی عبیداللہ خاں اعظمی کو بند کردیا کرتی تھی حیدر آباد کے اویسی برادران کو بند کردیتی ہے۔
ہمارے ملک کے قانون میں تو کوئی فرق نہیں لیکن قانون پر عمل کرنے والوں میں بہت فرق ہے اسی لئے وہ بھڑکاؤ بھاشن جو ڈاکٹر پروین توگڑیا، اشوک سنگھل یا ٹھاکرے برادران یا کوئی بھی بی جے پی کا لیڈر یا آر ایس ایس پریوار کا بالک مسلمانوں کے خلاف دے وہ خلاف قانون نہیں ہوتا نہ اس کے لئے کسی کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف انصاف کی دہائی دے تو وہ اتنا بڑا جرم ہوتا ہے کہ بھاشن پورا ہونے سے پہلے ہی گرفتاری ہوجاتی ہے۔ اس سے بھی بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ جس عدلیہ کو مسلمان اپنی آخری اُمید سمجھتا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کہ جب سہارن پور کے عمران مسعود کو گرفتار کیا تو ہر طرف شور تھا کہ یہ چھ مہینے پرانی تقریر ہے اور اس وقت عمران کانگریس میں تھے بھی نہیں۔ لیکن انہیں جب عدالت میں پیش کیا تو مجسٹریٹ صاحب نے پولیس سے یہ معلوم کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی کہ یہ تقریر کب کی تھی کہاں کی تھی کس پارٹی کا جلسہ تھا؟ اور اگر یہ پرانی تقریر ہے تو اس سے فضا کتنی خراب ہوئی اور ماحول پر کیا اثر پڑا؟ یہ زحمت اس لئے نہیں کی کہ پولیس جسے لائی تھی اس کا نام عمران تھا اور وہ مسلمان تھا اور یہ کافی تھا۔
اترپردیش کی بہادر اور قابل پولیس نے امت شاہ کے جس بھاشن پر شکنجہ کسا تھا وہ یہ تھا کہ لوک سبھا الیکشن کے موقع پر شری امت شاہ نے اپنے بھاشن میں کہا تھا کہ 2014 ء کا الیکشن گذشتہ سال اترپردیش کے مظفرنگر فسادات کا بدلہ نکالنے کا ایک موقع ہے اس مہاپرُش سے کسی بھی سمجھدار آدمی نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ مظفرنگر میں مسلمانوں نے کتنے ہندوؤں کو اور کانگریسیوں نے بی جے پی کے کتنے کارکنوں کو مار دیا تھا جس کا بدلہ الیکشن کے ذریعہ لیا جارہا ہے؟ مظفرنگر میں تو دنیا مانتی ہے کہ 60 سے زیادہ مسلمان قتل کئے گئے نہ جانے کتنی لڑکیوں کی جاٹ ہندوؤں نے عزت لوٹی اور پچاس ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑکر اپنے ہی ملک میں نہیں اپنے ہی ضلع میں شرنارتھی بن گئے اور ایک سال ہوگیا کہ خیرات پر جی رہے ہیں۔ یہ کشمیری پنڈت نہیں ہیں جن کے لئے حکومت نے اپنے خزانے کا منھ کھول رکھا ہے اور اربوں کھربوں روپئے ان پر خرچ کئے ہیں انہیں عالیشان مکان بناکر دیئے ہیں اور ان کا سارا خرچ حکومت اُٹھا رہی ہے اس کے باوجود وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ نے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کولکھا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو واپس لانے کے لئے مکان بنانے کے لئے زمین کا انتظام کیا جائے۔
ہم آج تک یہی جانتے تھے کہ مظلوم کی حمایت میں ظالم سے بدلہ لیا جاتا ہے لیکن شری امت شاہ جو اپنی ایسی ہی صلاحیتوں کی بناء پر بی جے پی کے صدر بنائے گئے ہیں وہ پہلے مسلمانوں کو مرواتے ہیں ان کے گھر بار تباہ کراتے ہیں پھر ہندوؤں کو اُکساتے ہیں کہ ووٹ دے کر بدلہ لو۔ اور کوئی نہیں معلوم کرتا کہ ہمارے تو بمشکل دس آدمی مرے ہیں اور ہم نے ساٹھ مارے ہیں۔ پھر یہ کہ ہم اپنے محل میں بیٹھے ہیں اور جن سے بدلہ لینے کو کہا جارہا ہے وہ خیرات پر جی رہے ہیں تو بدلہ کس سے لیں؟ اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ جب ملک کی حکمراں پارٹی کا صدر اس ذہنیت اور صلاحیت کا ہوگا تو ملک کا کیا حال ہوگا؟ اور جو مارکر مرنے والوں سے بدلہ لینے کی بات کرے وہ مسلمانوں کا کیا حشر کرے گا؟

«
»

’’17ستمبر‘‘۔۔۔یومِ نجات نہیں یومِ ماتم !

مسئلہ فلسطین کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے