لکھنؤ: اسکول میں ۱۲ سالہ مسلم طالب علم کو بری طرح زدو کوب کیا گیا

ایک۱۲ سالہ مسلمان طالب علم فرقان کو لکھنؤ کے فریدی پور میں واقع گرین وے پبلک اسکول میں نوراتری ڈنڈیا کی تقریبات کے دوران جان بوجھ کرحملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ طلباء نے فرقان کو مبینہ طور پر اس کی مسلم شناخت کی وجہ سے بے دردی سے مارا پیٹا اور ہراساں کیا۔ آٹھویں جماعت کے طالب علم کو اسکول انتظامیہ کی طرف سے کوئی حفاظتی اقدام یا تعاون نہیں ملا۔ متاثرہ کی مدد کرنے کے بجائے، اسکول انتظامیہ متاثرین پر پھٹ پڑا اور اس سے کہا کہ وہ مخالفت نہ کرے یا آواز نہ اٹھائے۔ ساتھ ہی پرنسپل نے فرقان کوٹی سی (ٹرانسفر سرٹیفکیٹ) دینے کی اور اس کا نام رجسٹر سے نکال دینے کی بھی دھمکیاں دی۔ فرقان نے ’ دی آبزرور پوسٹ‘ کو حملے کے متعلق بتایا ہوئے کہا کہ ’’شیوا نے حملے میں ملوث گروپ کی قیادت کی۔ انکور نے گلا گھونٹنے کیلئے چھلانگ لگائی تھی اس کے ساتھ سبھاش، روپیش اور بہت سے دوسرے لڑکے بھی تھے۔ ‘‘ واضح رہے کہ یہ گرین وے پبلک اسکول کی مختلف کلاسوں کے طالب علم تھے، جن کے ساتھ کچھ باہر والے اور ان کے خاندان کے افراد بھی تھے۔ 

واقعہ سے پہلے بھی وہ لڑکے فرقان کو پریشان کر چکے تھے
ان شیریر طلبہ کے ذہنوں میں پہلے ہی سے نفرت بھری ہوئی تھی اس لئےانہوں نے فرقان کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ لہٰذابغیر کسی وجہ اور وضاحت کے انہوں نے اس سے کہا وہ ہیرو نہ بنے یا ساتھی طلباء سے دوستی کرے اورڈانڈیا کی تقریبات میں شرکت نہ کرے۔ فرقان نے اس بارے میں اپنے والدین کو مطلع کیا لیکن مس نیہا نے یقین دلایا وہ فرقان کو ڈانڈیا کی تقریب میں شرکت کیلئے بھیجیں ۔ واقعے سے صرف چار دن پہلے انہوں نے فرقان کو اپنے اسکول کی عمارت کی پہلی منزل پر گھیرا تھا اور اسی ذہنی اور جسمانی اذیت پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ فرقان کے بڑے بھائی نے بتایا کہ ایک طالب علم نے فرقان کا ہاتھ پیچھے مروڑا، اور اس سے دوستی نہ کرنے یا تہوار کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کو کہا۔ اساتذہ سے شکایت کرنے کے بعد فرقان مطمئن ہوگیا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ شکایات اور انتظامیہ اسے بچانے کے بجائے اسی پر الزام تراشیاں کرنے لگے گی۔ 

ڈانڈیا کنسرٹ والے دن کیا ہوا
ڈانڈیا کنسرٹ کے دن فرقان نے خوبصورت لباس زیب تن کیا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی بھاری جیکٹ رکھنے کیلئے قریب ہی اپنے دوست کے پاس گیا تو اس نے خود کو حملہ آوروں کے ایک گروپ سے گھرا ہوا پایا۔ فیضان نے اپنے بیان میں بتایا کہ وہ آٹھویں، دسویں اور بارہویں جماعت کے طالب علم تھے۔ تقریباً ۸؍ سے۹؍ طلباء گرین وے اسکول کے تھے اورباقی باہر کے تھے۔ ان شریر طلباء نے اسے(فرقان کو) بے دردی سے مارا پیٹایہاں تک کہ وہ بالکل بے حس ہو گیا۔ فیضان نے مزید بتا یا کہ انہیں لگا کہ اس کا کام تمام ہوگیا ہے(وہ مر گیا ہے)۔ پھر ایک اور لڑکا اپنی موٹر سائیکل لے کر اسے کچلنے کیلئے آیا، تاکہ قتل، حادثہ معلوم ہو۔ اس مشکل صورتحال سے خوفزدہ ہو کر فرقان تیزی سے بھاگا اور حملہ آوروں نے تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور ایک بڑے لوہے کے دروازے کے سامنے اسے دوبارہ مارا۔ موٹر سائیکل سوار کی شناخت روپیش کے طور پر کی گئی ہے جو پرنس راجپوت کا بڑا بھائی ہے جو آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ روپیش نے کسی بھی ممکنہ قانونی مضمرات سے بچنے کیلئے اور مدد کیلئے ایک خاتون ٹیچر سے بھی رابطہ کیا، اور اس (ٹیچر)نے اسے پریشان نہ ہونے کی تلقین کی۔ 

پرنسپل کی ٹی سی دینے کی دھمکی 
اس واقعہ کے بعد اسکول انتظامیہ نے مسلمان طالب علم کی حمایت نہیں کی بلکہ منیجر نے اسے خاموش رہنے کو کہا اور اس کے ساتھ مجرمانہ سلوک کیا۔ وہ درحقیقت بدمعاشوں کی وکالت کر رہے تھے۔ فرقان نے بتایا کہ انہوں (پرنسپل )نے مجھے ٹی سی (ٹرانسفر سرٹیفکیٹ) دینے اور میرا نام داخلہ رجسٹر سے ہٹانے کی دھمکی دی۔ کچھ مقامی رہائشیوں اور والدین نے جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا، فرقان کی حمایت کی، لیکن آخر کار ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ اسکول انتظامیہ نے کہا کہ ہم غیر ضروری ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں اور معاون مقامی لوگوں کو دھمکی دی کہ وہ پرسکون رہیں ورنہ فرقان کے ساتھ ان کے بچوں کا بھی ٹی سی جاری کردیا جائے گا۔ 

پولیس نے مناسب کارروائی نہیں کی 
فرقان اور اس کے اہل خانہ نے قریبی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی جہاں دونوں فریقین کو بلا کر ایک بے معنی معاہدہ کرایا گیا۔ پولیس نے کہا کہ اگر دوبارہ ایسا کچھ ہوا تو وہ مناسب کارروائی کریں گے۔ اسکول انتظامیہ نے بھی یہی بات دہرائی۔ لیکن اس سے کسی چیز کا جواز نہیں بنتا تھا۔ بڑے بھائی فیضان نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس چوکی میں کوئی بھی مجرم نہیں پایا گیا اور بدمعاشوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ کسی نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جس سے ایک معصوم کی جان جا سکتی تھی۔ غنڈے روپیش کی وکالت کرنے پر کسی استاد کو معطل نہیں کیا گیا۔ گرین وے پبلک اسکول کے سینئر معلم ایس کے سنگھ نے کہا کہ ہم نے کیس کی تحقیقات کیلئے ایک نوڈل افسر مقرر کیا ہے۔ ہم نے کونسلرز بھی مقرر کئےہیں۔ ہمارے مقامی متعلقہ پولیس افسران کی طرف سے دی گئی تمام ہدایات کا اطلاق کیا گیا ہے اور ہم نئی تجاویز کا خیرمقدم کرنے کیلئے ہمیشہ تیار ہیں۔ دوسری طرف، ایس آئی شبھم نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد والدین بہت خوفزدہ ہیں۔ ہم نے ان سے ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی ہے اور اس معاملے کو ٹھیک کرنے کیلئے والدین اور اساتذہ کی میٹنگ بھی کی ہے۔ 

«
»

آسام کے پناہ گزینوں کے لیے شہریت قانون 6A برقرار، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

جموں کشمیر کو ریاستی درجہ دینے کے مطالبہ نے پکڑا زور ، سپریم کورٹ میں عرضی داخل