رسالہ نقوش طیبات کے ایک قدر داں کی وفات

مولانا محمد ناصر سعید اکرمی
(ایڈیٹر نقوش طیبات ، بھٹکل )
جناب محمد یحییٰ صاحب دامدا مرحوم :
مؤرخہ ۹/ ستمبر ۲۰۲۴؁ء جناب یحییٰ دامدا کی اچانک وفات کی خبر سن کر رنج و قلق ہوا ۔ اناللہ وإنا الیہ راجعون
مرحوم یحییٰ صاحب معہد امام حسن البنا سے نکلنے والے رسالے نقوشِ طیبات کے مستقل خریدار تھے ،قریب ۱۲/ سال سے وہ اس کے خریدار رہے ہیں اس اعتبار سے وہ بہت پرانے خریداروں میں شمار ہوتے ہیں ۔
روح انسانی اللہ کے حکم کے تابع ہے ، کب اور کہاں یہ حکم آتا ہے کوئی نہیں جانتا ، کسی بھی وقت یہ حکم آ سکتا ہے ، قرآن میں ہے’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوح ، قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أمْرِ رَبیّ ‘‘(بقرۃ) وہ ( کفار ) آپ ﷺ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کا امر ( حکم ) ہے ، حدیث میں ہے ’’ عن عائشہ ؓ قالت: لما قدم رسول اللّٰہ ﷺ المدینۃ و عِکَ ابو بکر وبلال ، فکان ابو بکر إذا أخذتہ الحُمّی، یقول : کُلّ أمریٔ مصبح في اھلہ۔ والموت ادنی من شراک نعلہ ( بخاری ) حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے ، انھوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو سخت بخار لاحق ہو گیا ، حضرت ابو بکرؓ کو جب بخار آیا تو آپؓ فرماتے تھے : ہر انسان اپنے اہل و عیال میں صبح کرتا ہے ، حالانکہ موت اس کے جو تے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔یہ ایک طویل حدیث ہے اس کا ہم نے صر ف ایک ٹکڑا یہاں آپ کے سامنے پیش کیا ہے ۔
یہ ہمارے روز کا مشاہدہ ہے کہ موت خبر دیے بغیر اچانک آجاتی ہے ، مرحوم یحییٰ صاحب کے بارے میں مولانا عبد النور فکردے ندوی کی زبانی یہ تفصیل معلوم ہوئی کہ مرحوم یحییٰ صاحب نے اپنے داماد کو گھر پرکھانے کی دعوت دی تھی او ر مشروب لانے وہ بازار گئے ہوئے تھے ، مشروب خریدے او ر دکاندار کو قیمت بھی ادا کی اور وہیں دکان کے سامنے ہی گر گئے، اسی وقت ہسپتال لے جایا گیا ،لیکن راستے میں ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اسی کو یہاں یہ کہاگیا ہے کہ ’’ الموت ادنی من شراک نعلہ‘‘ یعنی موت آدمی کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے ۔
انسان دنیاکی مشغولیات میں رہتا ہے ، اپنی بیوی بچوں میں ، گھر کے کاموں میںاور اپنے کاروبار میں مصروف رہتا ہے ، ان مصروفیات کے دوران اس کو موت آجاتی ہے اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ منٹوں اور سیکنڈوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے ، ادھر چند دن پہلے دبئی میں ایک نو جوان کا انتقال ہوا ، جب کہ وطن میں اس کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں ، دوچار روز میں اس کا نکاح ہونے والا تھا ، اچانک موت آجاتی ہے ، اور وہ سب چیزیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیںاور ’’ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ‘‘ والی بات صادق آجاتی ہے ۔
مرحوم کے والد :
مرحوم یحییٰ صاحب کے والد جناب باشاہ صاحب دامدامرحوم ( بڈور ) بڑے نیک اور صوم و صلاۃ کے پا بند تھے ، اکثر روزے سے رہتے تھے ، راقم نے ان کو بارہا دیکھا کہ وہ جامع مسجد میں اپنا روزہ افطار کرتے تھے ، مسجد سے قریب ان کا گھر ہے ، وہاں سے مشروب آتا تھا او رآپ اس سے افطار کرتے تھے ، مرحوم بادشاہ صاحب ہمارے خسر جناب برماور سید میراں صاحب مرحوم سے قریبی تعلقات تھے ، ایک ہی محلے میں گھر کے قریب ہی ان کا گھر تھا ۔
مرحوم بادشاہ صاحب ملی و قومی اسکولوں کے بڑے قدر داں تھے تو دوسری طرف غیر ملی اسکولوں کے سخت مخالف بھی تھے ، وہ یہ چاہتے تھے ہمارے اسکول ہمیشہ ترقی کی راہوں پر گامزن رہیں ، ہماری قوم کے بچے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں ، مرحوم کے ایک فرزند نے اپنے بچے کو غیر ملی اسکول میں داخل کیا تو اس سے سخت ناراض ہوئے او رفرزند سے بولنا چھوڑدیا ، اور روپئے پیسے اور لینا دینا سب بند کر دیا اور کہا کہ جب تک اپنے بچے کو غیر ملی اسکول سے نکال کر ملی اسکول میں داخل نہ کروگے اس وقت تک بات ہی نہیں کروں گا ، ایسا سخت موقف اختیار کرنا یہ ان کے قوم و ملت سے محبت کی دلیل ہے ، بعد میں ایسا ہوا کہ فرزند کو اس اسکول سے نکالنا پڑا ۔
نماز باجماعت کے بڑے پابند تھے ، گھر پر ایک بورڈ آویزاں کر کے اس میں یہ تحریر لکھ دی تھی کہ ’’ تم کو ہر کام کی فرصت ہے مگر نماز کی فرصت نہیں ‘‘۔ مرحوم آداب نیم شبی کے بڑے پابند تھے ، اپنے بچوں اور ماتحتوں کو پنج وقتہ نمازوں کی بڑی تاکید کرتے تھے ، مرحوم تبلیغی جماعت سے بہت متاثر تھے ، بھٹکل میں پہلی مرتبہ جب جماعت آئی تو مرحوم نے ان کا بھر پور ساتھ دیا ، یہی سے ان کی زندگی کی کایہ پلٹی اور زندگی میں انقلاب آیا ، جماعت کا ساتھ دینا ان کو اپنے گھر بلانے ، کھلانے ، پلانے وغیرہ کام بھی آپ بڑے شوق و محبت سے کیا کرتے تھے ، بڑے مہمان نواز بھی تھے ، جامعہ اسلامیہ کے شوری کے ممبر رہ کر بھی آپ نے بڑی خدمت انجام دی ہے ۔
مرحوم بادشاہ صاحب کے بارے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ انھوں نے ۳۵/ سالوں پر محیط ایک لمبی مدت تک مجلس اصلاح و تنظیم کے سکریٹری رہ چکے ہیں اور آپ نے اس ناحیے سے قوم و ملت کی بڑی خدمت کی ہے ،آپ نے ایک لمبی عمر پائی ، وفات کے وقت ان کی عمر۱۰۰/سو سے زیادہ تھی،مرحوم بادشاہ صاحب دامدا و مولانا احمد خطیبی مرحوم (سابق قاضی جماعت المسلمین، بھٹکل )اور راقم کے چچا عبدالقادر بادشاہ صاحب اکرمی مرحوم ( سابق امام و خطیب جامع مسجد،بھٹکل ) تینوں ہم عمر تھے ، ہمارے چچا مرحوم قریب ۹۰/ سال عمر پائی ، جبکہ اول الذکر دونوں نے ۱۰۰ /سے زائد عمر پائی تھی ، اسی طرح ان تینوں حضرات ’’خیرکم من طال عمرہ و حسن عملہ‘‘ کے مبارک زمرے میں شامل ہوئے ۔اللھم اغفرلھم وارحمھم
مولانا عبد النور صاحب کے توسط سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مرحومیحییٰ صاحب اپنی زندگی کی اکثر بہاریں سعودیہ تبوک میں ذریعہ معاش کی خاطر گزاری ہیں ، جہاں بھٹکل کے اور لوگ بھی کاروبار کی غرض سے قیام پذیر ہیں ، دنیا کا کون سا کونہ ہوگا جہاں بھٹکلی لوگ نہ رہتے ہوں ، مرحوم یحییٰصاحب وہاں سے پھر بھٹکل آئے ، تو بھٹکل ہی کے ہو کر رہ گئے ،انسان کے مقدر میں جہاں رہنا اور قیام کرنا ہوتا ہے وہ وہاں چلا جاتا ہے ، پھر اخیر میں اس کی جائے قرار قبر کا گڑھا ہے ، وہاں وہ ہمیشہ کے لیے استراحت کرتا ہے ۔
سو کی ایک بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں بھی رہیں ،دنیا کے جس کونے میںبھی رہیں ، اللہ کی مرضیات پر عمل کرتے ہوئے اور اس کی منہیات سے بچتے ہوئے زندگی گزاریں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق مرحمت فرمائے (آمین)۔
مرحوم یحییٰ صاحب اپنے والد کے سب سے چھوٹے فرزند تھے ، موصوف نماز ،روزے کے بڑے پابند تھے ، خوش مزاج اور خوش اخلاق تھے ، کتب بینی کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے ، رسالہ طیبات کے تعلق سے ان سے کئی بار گفتگو اور ملاقاتیں رہی ہیں ، مرحوم یحییٰٰ صاحب مولانا ہاشم صاحب ندوی ایس یم کے رشتے میں ماموں لگتے ہیں ، ادھر قریب ایک ماہ پہلے موصوف کے والدسید نظام الدین صاحب کا انتقال ہوگیاتھا ،وہ زخم ابھی مندمل ہی نہ ہونے پایا تھا کہ ایک اور زخم ان کوسہنا پڑا ۔
اللہ تعالیٰ ان کو او ران کے گھر والوں کو صبر و تحمل کی توفیق دے اور جملہ مرحومین کی بال بال مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین

«
»

یوکرین نے ماسکو تک کئے ڈرون حملے ، پوتن کی نیندیں اڑگئیں

پٹنہ گاندھی میدان بم دھماکہ معاملہ : ہائی کورٹ نے چار ملزمین کی پھانسی کی سزاؤں کو تیس سال میں تبدیل کردیا