اسلام کے فطری قوانین ہی، آج کے مسائل کا حل

عار ف عزیز(بھوپال)

٭     فرد کی آزادی کے نام پر آج یوروپ کے جمہوری ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے اِس سے نہ صرف عریانی، فحاشی اور بدکاری بڑھ رہی ہے بلکہ پوری انسانیت کی تذلیل کا سامان بھی ہورہا ہے۔ عام طور پر ایسے قوانین بن رہے ہیں جن سے افراد خاندان اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے سماجی رشتوں کی پاکیزگی ختم ہوچکی ہے، اخلاقی قدریں منہدم ہوچکی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انسان کے دلوں سے چین وسکون رخصت ہوگیا ہے۔
    مردوں کی مردوں سے اور عورتوں کی عورتوں سے نام نہاد شادی کی راہ ہموار ہوگئی ہے، اس طرح رشتہئ ازدواج کا حق جو انسانیت کا امتیاز تھا اُسے بے شرمی اور خرمستی کے لئے کام لایا جارہا ہے۔ حالانکہ ایسے تمام ممالک اس مسیحیت کے علمبردار ہیں جس کی مقدس کتاب بائیبل میں قوم لوط کا حشر اور اُس پر عذاب کی تفصیل موجود ہے کہ اُس بستی پر جس کی طرف  لوط علیہ السلام کو بھیجا گیا صرف اس لئے عذاب آیا کہ وہ ہم جنسی کی لعنت میں مبتلا تھے اور برسرعام اس کا ارتکاب کررہے تھے۔
    یعنی اُن سے شرم وحیا قطعی اٹھ چکی تھی، یہی حال موجودہ یوروپی برادری کا بھی ہے جہاں اس قسم کے قانون بناکر اور بدکاری کو فروغ دے کر عذابِ الٰہی کو دعوت دی جارہی ہے جس کا ایک نمونہ ایڈس کی شکل میں سامنے ہے۔ یہ انتہائی خوفناک مرض امریکہ اور یوروپ کی ہی دین ہے۔ جبکہ شروع میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بعض افریقی ممالک سے اِس سنگین مرض کی داغ بیل پڑی ہے مگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ یہ خطرناک مرض ہم جنسی کے نتیجے میں امریکہ ویوروپ سے پھیلا ہے اور آج ان ممالک میں اس کے ہزاروں مریض موت وزندگی کی کشمکش میں گرفتار ہیں۔ 
    اسلام میں قتل کے لئے قصاص یا موت کی سزا مقرر ہے لیکن اِس کے ساتھ یہ رعایت بھی دی گئی ہے کہ اگر مقتول کے وارث رضامند ہوں تو وہ خون بہا کے نام سے بدلہ کے طور پر کچھ رقم لے کر قاتل کو معاف کرسکتے ہیں مگر اس رقم کاتعین کرتے وقت قاتل کی حیثیت اور مقتول کے ورثاء کو سامنے رکھا جائے گا مطلب یہ ہے کہ رقم اتنی ہو کہ آئندہ قاتل کو قتل کے ارتکاب سے باز رکھ سکے، دوسری جانب روزی کے لئے مقتول پر انحصار کرنے والے افراد خاندان کو اس سے مناسب مدد مل جائے۔ گویا اسلام میں شروع سے قتل کے لئے موت کی سزا کے ساتھ ساتھ اِس میں رعایت بھی موجود ہے۔ 
    ایسے فطری قانون کی مخالفت جو لوگ کرتے ہیں ان کی عقل وسمجھ پر افسوس کے سوا اورکیا کیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر زمانہ اور خطہ کے لوگ اُن کو اپناتے اور اِس طرح اپنے دکھ درد کا مداوا کرلیتے۔

 

«
»

بے باک صحافی حفیظ نعمانی

کیا دِنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ بلیک ڈے ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے