آج بھی ہمارے ملک میں بچے بکتے ہیں بچوں کے لئے انتہائی خطرناک ملک بھارت

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

    بھارت میں ’چلڈرینس ڈے‘ ہر سال منایا جاتا ہے مگر بچوں کی حالت زارپر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔کیا کوئی یقین کرسکتا ہے کہ آج بھی بھارت میں لوگ،بچوں کو غربت کے سبب فروخت کررہے ہیں اور آج بھی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کا کوئی واقعہ نہ ہوتا ہو۔مظفرپور شیلٹر ہوم میں بچیوں کے ساتھ کیا ہوا؟ اس معاملے کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں اور اب بھی معاملہ کورٹ میں چل رہاہے۔ہمارے دیش میں درندوں کی درندگی سے ننھی بچیاں بھی محفوظ نہیں۔جنسی بھیڑیے پھول سی نازک منھی منی کلیوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں اور ملک کا قانون خاموش تماشائی بنا ہواہے۔دوسری طرف کچھ سیاسی پارٹیوں کے لوگ ریپ میں بھی ہندو۔مسلم کا پہلو ڈھونڈ کر سیاست شروع کردیتے ہیں۔بچیوں سے ریپ کے معاملے میں پوکسو ایکٹ لاگو ہونا چاہئے، ایک سال کے اندر کورٹ کی کاروائی مکمل ہونی چاہئے اور مجرموں کو سزا ملنی چاہئے مگر ریاستی حکومتیں اس معاملے میں پھسڈی ثابت ہورہی ہیں۔جب حکومتیں ناکام ہیں اور پولس اپنی ذمہ داریاں مکمل کرنے میں نکمی ثابت ہورہی ہیں توایسے وقت میں سپریم کورٹ نے ایسی بچیوں کو انصاف دلانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ 
 انصاف کا انتظام نہیں 
     سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بچوں کے ساتھ ہورہی عصمت دری کے معاملات کو خود ہی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران وکیل وی گیری نے عدالت کو بتایا کہ بچوں  کے ساتھ ہورہی زیادتی کے معاملوں میں حکومت پوکسو ایکٹ لاگو کرنے میں پھسڈی ثابت ہوئی ہے۔ تمام دعووں کے باوجود، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی روک تھام نہیں کی جا سکی ہے۔ گیری نے عدالت کو بتایا کہ اس طرح کے معاملات میں، فوری طور پر تحقیقات کو مکمل کرنے اور مجرموں کو سخت سزا دینے کے لئے، خصوصی پوکسو کورٹ قائم کرناہوگی اور خصوصی پبلک پراسیکیوٹر مقرر کرنے ہونگے۔انہوں نے مزید بتایا کہ دہلی کے سوا کہیں بھی ایسے مقدموں کے لئے علیحدہ کمرہ،ویٹنگ روم اور جنسی استحصال کے شکار بچوں کے بیان درج کرنے یا گواہوں کے بیانات لینے کے لئے علاحدہ کمرہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا پوکسوا ایکٹ کے مطابق، مجرموں کو ایک سال میں سماعت مکمل کر کے سزا دی جانی چاہئے، لیکن پولیس کی لاپرواہی کے سبب،یہ ایک سال کے بعد بھی مکمل نہیں ہوتی۔واضح ہوکہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں سینئر وکیل وی گیری کو”رفیق عدالت“مقرر کیا ہے۔چیف جسٹس گوگوئی نے گیری کے تمام اعداد و شمار کو دیکھ کر کہا ہے کہ وہ ان کا مطالعہ کریں اور عدالت کو تجویز پیش کریں کہ وہ کیا احکامات جاری کرسکتی ہے۔
عدالت برہم
    سپریم کورٹ نے عصمت دری کے معاملے میں بچوں کے اعداد و شمار کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ایک خراب صورت حال ہے۔ دہلی میں، اس سال جنوری سے جون تک اس طرح کے 172 واقعات رجسٹرڈ ہوئے ہیں لیکن صرف دو معاملوں میں مقدمہ مکمل ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ وہ بچوں سے ریپ کے معاملات میں انتہائی سنجیدہ ہے اور اسی لئے اس نے میڈیا میں آرہی خبروں کے سبب خود ہی کیس درج کیا ہے۔ چیف جسٹس گوگوئی نے خود کیس درج کیا۔
 اعدادکیا کہتے ہیں؟
    اعداد و شمار کے مطابق 1 جنوری سے 30 جون کے دوران، ملک میں بچوں سے ریپ کے تقریبا 24 ہزار واقعات رجسٹرڈ ہیں۔اس فہرست میں 3457 معاملوں کے ساتھ،اترپردیش سب سے اوپرہے۔جب کہ سب سے کم 9 معاملے ناگالینڈ سے سامنے آئے ہیں۔ یوپی میں بچوں سے ریپ کے حساس مقدموں میں بھی پولیس کی لاپرواہی سامنے آئی ہے۔حد یہ کہ اس طرح کے 50 فیصد زیادہ یعنی 1779 معاملوں کی تحقیقات ہی مکمل نہیں ہو پائی ہے، ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس بلیک لسٹ میں، مدھیہ پردیش 2389 مقدمات کے ساتھ دوسرے نمبرپر ہے لیکن پولیس نے 1841 مقدموں میں ہی انکوائری مکمل کر چارج شیٹ داخل کیا ہے۔ ریاست کی عدالتوں نے 247 مقدموں میں سماعت بھی مکمل کرلی ہے۔
سپریم کورٹ کے احکامات
    سپریم کورٹ نے کہا کہ جو اعداد و شمار ہمیں ملے وہ پہلی جنوری سے 30 جون تک کے ہیں۔ اس سے پہلے کے اعداد و شمار اور زیادہ ہوں گے۔ جنسی جرائم میں مبتلا بچوں کا ضلعی پیمانے پر ڈیٹا چاہئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا،یہ تشویشناک بات ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم اور ہدایات کے بعد بھی پورے انتظامات نہیں کئے گئے ہیں۔سپریم کورٹ نے وی گیری سے کہا کہ جنسی جرائم میں مبتلا بچوں کو انصاف دلانے کے لئے ہم  کیا کرسکتے ہیں، اس بات کا آپ مشورہ دیں۔ اس پر گیری نے کہا کہ پوکسو کے تحت خصوصی کورٹوں کی تشکیل اورپبلک پراسیکیوٹرس کی بحالی کے بعد ہی کچھ تبدیلی آئے گی۔سپریم کورٹ نے سبھی ریاستوں کی جوینائل جسٹس کمیٹیوں سے اس قسم کے زیر التواء معاملات کی تفصیلات مانگی ہے۔ سپریم کورٹ نے رجسٹری سے کہا ہے کہ 10 دنوں میں تمام جانکاریاں جمع کی جائیں۔
 جہاں معصوم بچے بکتے ہیں 
    بھارت میں جہاں ہرسال ہزاروں چھوٹی بچیاں حیوانیت کا شکار ہوتی ہیں، وہیں بہت سے چھوٹے بچے فروخت بھی ہوتے ہیں۔ پنوں کی عمرمحض12 سال تھی اور ایک سال کے لئے اس کی قیمت30 ہزار روپے لگی تھی۔ باپ نے بیٹے کو بچولیا کے حوالے کردیا۔ پنو کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے؟ وہ کبھی واپس لوٹے گا یا نہیں؟ پنو کے ساتھ،ہی راجستھان کے ضلع بنسواڑہ کے گاؤوں میں، اسی کی عمر کے کچھ اوربچے راتوں رات اس طرح غائب ہوئے کہ پھر کبھی نہیں دیکھائی پڑے۔ پنو کو ایک چرواہے (بکری پالنے والے) کے ساتھ،مدھیہ پردیش کے اْجین بھیجا گیا، جہاں اس نے تین سال کام کیا۔ یہاں تک کہ اسے بازیاب ہونے سے قبل تک کئی راتیں بغیر کھاناکے جاگ کر گزارنی پڑیں۔
غربت کی انتہا
     غربت کی انتہا نے راجستھان کے پرتاپ گڑھ اور بنسواڑہ اضلاع کے قبائلی علاقوں کے باشندوں کو اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کے بدلے میں ان لوگوں کو ہر ماہ تقریبا دو ہزار روپے ملتے ہیں۔ اس علاقے میں زراعت تقریبا صفر ہے کیونکہ پتھریلی زمین کے سبب سبزے نہیں اگتے۔ یہاں مکئی کی واحد فصل ہوتی ہے۔ چوندئی اور حمیر پور جیسے گاؤوں کے لوگوں نے آج تک بجلی نہیں دیکھی، جبکہ قریب ترین اسپتال اور اسکول بہت دور ہیں۔ خواندگی بھی بہت کم ہے۔ پرتاپ گڑھ ضلع کے بہے تھنسلا گاؤں میں کسی بھی شخص نے دسویں جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
گاؤں میں کام نہیں ملتا 
    یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ اس سے قبل انہیں مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (ایم جی این آر ای جی اے) یعنی منریگا کے تحت کام ملتا تھا، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس کے تحت کوئی کام منظور نہیں ہوا ہے،لہٰذا انہیں کام نہیں مل رہا ہے۔ آمدنی کے ذرائع کی کمی کی وجہ سے، کچھ خاندان چھ سال سے کم عمر کے بچوں کو دوسری جگہوں پر اجرت پر بھیجنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
جن بچوں کو بچایا گیا
     30 دنوں میں، محکمہ خواتین و اطفال بہبود کے تحت، بنسواڑہ میں چلڈرن ویلفیئر کمیٹی کے ممبروں نے پنو کے علاوہ دو مزید بچہ مزدوروں کو بھی بچایا ہے۔ جون میں آٹھ سالہ روہت کو ایم پی کے دھار سے بچایا گیا تھا، جس کے بعد روہت کو بنسواڑہ میں شیلٹر ہوم لایا گیا تھا۔ قریبی ضلع پرتاپ گڑھ میں، چائلڈ لائن انڈیا کی ایک این جی او نے حال ہی میں دو بچہ مزدوروں کو بچایا تھا۔ راجستھان اسٹیٹ چائلڈ پروٹیکشن کنزرویشن کمیشن کی ایک ٹیم نے متاثرہ اضلاع کا سروے کیا۔ ٹیم کے ایک رکن وجندر سنگھ نے بتایا کہ انہیں بچوں کو غیر قانونی تجارت کرنے والے مڈل مین کے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات ملی ہیں۔
چائلڈ لیبر کے معاملے میں یوپی ٹاپ
    راجستھان میں اگرچہ آدیباسی اور غریب اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں اور چھوٹے بچوں سے بڑے پیمانے پر مزدوری کرائی جاتی ہے مگر اس معاملے میں راجستھان تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر اترپردیش ہے۔ایک اندازے کے مطابق راجستھان میں آٹھ لاکھ سے زیادہ چائلڈ لیبر ہیں جب کہ اتر پردیش میں، 20 لاکھ بچے مزدوری کرتے ہیں اور بہار میں 10 لاکھ بچے اجرت پر کام کرتے ہیں۔ پورے بھارت میں چائلڈلیبر ایک کروڑ سے زیادہ ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں، مرکزی وزیر برائے محنت و روزگار سنتوش کمار گنگوار نے لوک سبھا کو بتایا کہ پچھلے پانچ سالوں میں تین لاکھ سے زیادہ چائلڈ مزدوروں کو بازیاب کرایا گیا ہے۔
بچہ مزدوروں کی ذہنی حالت
    حالانکہ مزدور بچوں کو بچائے جانے کے بعد بھی ان کی پریشانیاں کم نہیں ہوتیں۔ اس کی مثال راجستھان میں دیکھنے کو ملی کہ چندئی گاؤں کے پنو کی ماں نے اسے گھر لے جانے سے انکار کردیا۔ وہ بولی، وہ یہاں کیا کرے گا؟ اس کے بعد اسے ایک شیلٹر ہوم میں رکھا گیا۔کئی چائلڈ لیبر طویل مدتی بدسلوکی اور استحصال کی وجہ سے صدمے، اضطراب اور بے خوابی میں مبتلا ہیں۔ بیہ تھنسلہ گاؤں میں جھاڑیوں کے پیچھے ایک لڑکا ملا۔ اس لڑکے کو گذشتہ ماہ چائلڈلائف نے اندور سے بچایا تھا اور اسے گھر لایا گیا تھا۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ جب بھی گھر کے قریب کوئی آتا ہے تو ببو کھیتوں میں بھاگ جاتا ہے۔
آسمان پہ نظر، زمین سے بے خبر
    ایک طرف جہاں ہندوستان چاند پر کمند ڈالنے کو بے قرار ہے، وہیں دوسری طرف یہ شرمناک حقیقت ہے کہ معصوم بچوں کو لوگ غربت کے سبب بیچ رہے ہیں یا مزدوری پر لگا رہے ہیں۔ منریگا جیسی اسکیموں نے گاؤوں کو روزگار دینے کا کام کیا تھا مگر اب انھیں بھی بند کردیا گیا ہے جس کے سبب گاؤوں میں بھکمری بڑھی ہے۔معصوم بچوں کا جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال اکیسویں صدی میں ہورہا ہے جو باعث شرم ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

13نومبر

«
»

ساگ میں صحت

مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے