عید میلاد کی حقیقت اور سیرت کا اصل پیغام……….مولانا عبدالباری ندویؒ

           مولانا عبدالباری ندویؒ                                  
             (سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ وسابق خطیب جامع مسجد بھٹکل)
بارہ ربیع الاول اور سیرت نبوی 
    آج ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہے، اور ربیع الاول کے ہی مہینے میں نبی کریم ﷺ دنیا میں تشریف لائے، اور آپ کی پیدائش ایک بہت بڑی نعمت ہے، اتنی بڑی نعمت کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کے بعد سب سے بڑی نعمت رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے، اس میں کسی کو کوئی ادنیٰ درجہ کا اختلاف نہیں ہے لیکن عام طور پر حال یہ ہوگیا ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تبھی ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں، یااُس کے لیے کوئی نظم کرتے ہیں اور بالخصوص بعض جگہوں پر اس کو بارہ ربیع الاول کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے کہ وہ دن اور تاریخ آتی ہے تب رسول اللہ ﷺ کی سیرت سنی جاتی ہے، اور اس کے بعد پھر سیرت سے کوئی تعلق بظاہر لگتا نہیں ہے۔
نبی کریمﷺ کی سیرت کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں 
    سیرت کا تعلق صرف بارہ ربیع الاول یا اس مہینے کے ساتھ مختص نہیں ہے، یہ تو وہ سیرت ہے کہ جس کو ہر وقت پڑھا جائے، سال کے بارہ مہینے اور ۵۶۳ دن اس کے تذکرے ہوں، تب بھی اللہ کے رسول ﷺ کی نبوت اور اخلاقِ حمیدہ کا کوئی تذکرہ خاطر خواہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن ایک عجیب ماحول ہوگیا ہے، عام طور سے دیکھا یہ جاتا ہے کہ جب یہ مہینہ آتا ہے تو لوگ اس کے لیے محفلیں سجاتے، جشن مناتے اور جھنڈیاں لگاتے ہیں، اور اس کے لیے خصوصیت کے ساتھ عجیب وغریب طور پر جشن مناکر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں،بے شک رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سب سے بڑی مقدس شے ہے، اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، اور آپ کی آمد مبارک کا واقعہ دنیا کا سب سے بڑا واقعہ ہے، اس سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہوسکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ جس رسول کی پیدائش پر ہم لوگ جشن مناتے ہیں اُن کی تعلیمات میں اِس کا کہاں تک ثبوت ہے؟ اُس پیغمبر کی لائی ہوئی تعلیمات میں اِس کی کہاں تک اجازت ہے اور کس طرح سے رسول ﷺنے اُس دن کے منانے کا حکم فرمایا ہے؟ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 
جشن میلاد کا اسلام میں کوئی تصور نہیں 
    ہم اور آپ سبھی جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی پیدائش کا دن دنیا کا سب سے بڑا دن ہے، اگر کسی کی پیدائش پر کوئی جشن منانا چاہیے تھاتو حضور ﷺ کی ذات سے بڑھ کر کوئی دنیا کی شخصیت ایسی پیدا نہیں ہوئی جن کی پیدائش پر جشن منانا چاہیے! لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ نبی ہوکر آپ ۳۲ سال تک مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں رہے، ۳۱ سال مکہ میں رہے، دس سال مدینہ میں گزارے، ۳۲ سال کے عرصہ میں کبھی ایک مرتبہ بھی زبانِ نبوت سے اِس کا اظہار ہوا ہے کہ جس دن میں پیدا ہوا ہوں اُس دن کو تم جشن کا دن مناؤ! ۳۲ سال گزرے کبھی رسول اللہ ﷺ نے جشن میلاد نہیں منایا، اُس کے بعد آپ دنیا سے تشریف لے گئے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار اُس وقت موجود تھے جب حجۃ الوداع کے موقع پر آخری خطبہ ہورہا تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین بات بات پر اپنی جان نچھاور کرنے والے اور ان سے بڑھ کر سچا عاشق زارومحبوب دنیا کے اندر کوئی نہیں ہوسکتا، اُن عاشقین نے بھی کبھی رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر کوئی جشن نہیں منایا، اگر جشن منانے کے کوئی حق دار ہوتے تو واقعتا وہ صحابہ ہوتے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے اشاروں پر اپنی جانیں قربان ونچھاور کیں، لیکن انھوں نے بھی نہیں منایا، جشن منانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جھنڈیاں سجادے، راستے میں قبّے، لائٹنگ اور چراغ روشن کردے اور اس کے بعد یہ سمجھ لے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر خوشیاں منانی چاہیے اور یہ اس کا طریقہ رائجہ ہے، یہ ہماری اور آپ کی سوچ تو

ہوسکتی ہے لیکن ہمیں شریعت سے اس کی کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔
کرسمس کے دن کی حقیقت
    یہ اصل چیز جو آئی ہے ہمارے یہاں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، مسلمانوں کے اندر عیسائیوں کے یہاں سے پیدا ہوئی ہے، عیسائیوں نے اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے پیدائش کے دن کو کرسمس کا دن قرار دیا (۵۲/دسمبر اُن کے یہاں کرسمس کا دن ہوتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن منایا جاتا ہے) یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن بھی اُن کے زمانے میں نہیں منایا گیا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تین سو سال تک کرسمس (پیدائش پر جشن کا دن) نہیں منایا گیا، تین سو سال کے بعد پھر کچھ لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ دہرانی چاہیے اور ان کا تذکرہ آنا چاہیے تو انھوں نے یہ کام شروع کیا کہ اُس دن لوگوں کو ااپنے پاٹ، گرجاگھر میں جمع کیا، کچھ اُس وقت کے اچھے لوگوں نے اُن سے پوچھا بھی کہ اِس وقت جمع کرنے کا کیا ضرورت ہے! پیدائش کے دن کو حضرت عیسیٰ نے خود نہیں منایا اور ان کے حواریین نے نہیں منایا، ہم منانے کیا مطلب! کہنے لگے: کیا بُری بات ہے کہ اگر ان کے تذکرے کیے جائیں، یہ کہہ اُنھوں نے بات کو ٹال دیا، جب دیکھا کہ لوگ اس میں اتنا حصہ نہیں لیتے ہیں تو انھوں نے کچھ بینڈباجا بجانا شروع کیا اور کچھ ناچ رنگ کے شروع کردیے، گانے باجے اور رنڈیاں شروع کردیں، اور اس کے بعد بتدریج کرتے کرتے وہ خرافات (خدا کی پناہ!) جمع ہوگئیں کہ آج کرسمس کا دن جب دنیا کے اندر آتا ہے، بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں!
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر، اولوالعزم پیغمبر کی پیدائش کے نام پر جو خرافات کی جاتی ہیں، خاص طور پر یورپین ممالک کی آپ تاریخ دیکھئے، یورپین ممالک کو چھوڑئیے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں حال دیکھ لیجیے، کیا ہورہاہے! دل کانپ اٹھتا ہے! جتنی ایک دن ورات میں شراب پی جاتی ہیں پورے سال میں اتنی شراب نہیں پی جاتیں، جتنے ایک دن کے اندر حادثات رونما ہوتے ہیں پورے سال کے اندر اتنے حادثات رونما نہیں ہوتے، جتنے ایک دن کے اندر عورتوں کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں پورے سال میں اتنی عصمت دریاں نہیں ہوتیں۔
    اگر اُس نہج پر ہمارا اسلام جانے کی اجازت دیتا ہے تو ہمارے لیے ثبوت چاہیے کہ کہاں اس کی گنجائش ہے! جب کہ ہم نے دیکھا ہے کہ عیسائیوں کے یہاں بھی جشن منانا نہیں تھا، انھوں نے بھی جب منانا شروع کیا ہے تو کیا حال ہوگیا! مہذب آدمی اُن سے قریب ہونے اور داستانیں سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا! 
ربیع الاول کا پیغام
    ہم اس موقع پر اپنے دلوں میں رسول اللہ ﷺ  کی عظمت پیدا کریں، آپ کی لائی ہوئی شریعت کا احترام کریں، آپ کے لائے ہوئے قرآن کی تلاوت کریں، اُس کو پڑھنے اور سمجھنے اور دوسروں تک پہنچانے والے ہوں، اُس کو اپنے بچوں اور بچیوں کو حفظ کرانے والے ہوں،رسول اللہ ﷺ  کی محبت سے دل سرشار ہو، آپؐ کی سنتوں پر مرمٹنے کا جذبہ ہمارے اندر ہو، آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی ہمارے اندر جستجو ہو، اور آپ پر کثرت سے درود پڑھا جائے اور آپ کی شفاعت اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے، قرآن مجید اِس کی تعلیم دیتا ہے: ومن یطع اللّٰہ والرسول فأولٰئک أنعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین. جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، بات مانے گا، پس وہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ رہیں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے، نبیوں اور صدیقین اور شہداء اور اچھے لوگوں کے ساتھ۔
    ایک صحابی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ حضرت! قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: بتاؤ،تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ آپ ﷺ  بڑے حکیم تھے، جواب ایسے ہی نہیں دیتے تھے، پوچھنے والے کو سمجھتے تھے کہ کیوں پوچھ رہا ہے، اس کی وجہ کیا ہے! قیامت کب آئے تم کو اس سے کیا مطلب! آئے گی اپنے وقت پر، یہ جواب نہیں دیا، بلکہ فرمایا: تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کوئی زیادہ تیاری تو نہیں کی ہے، نماز زیادہ نہیں پڑھ رہاہوں، نہ زیادہ عبادات کررہا ہوں، لیکن اتنی بات بہرحال ہے کہ آپ کی محبت میرے دل میں ہے، بس یہ خیال آتا ہے کہ

 مرنے کے بعد آپ سے ملاقات ہوگی یا نہیں ہوگی! آپ بلند مقام پر ہوں گے اور ہم چھوٹے سے درجے میں ہوں گے! آپ ﷺنے فرمایا: أنت مع من أحببت. تم انھیں کے ساتھ رہوگے جن سے تم محبت کررہے ہو، حشر کے میدان میں بھی اور قیامت کے بعد کی زندگی میں بھی تم انھیں کے ساتھ رہو گے جن کے ساتھ تم محبت کروگے، سچی محبت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوگی تو آخرت میں بھی حضورﷺ کی شفاعت، رفاقت اور آپ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی سعادت نصیب ہوگی۔یہ ہے اصل پیغام اور شریعت کی مطلوب شے اور پسند کی جانے والے چیز!!
آپﷺ  کے اخلاق پر غیروں نے تک شہادت دی
    آپ ﷺ  کا جب تذکرہ آئے تو آپ کے ذہن میں یہ بھی آنا چاہیے کہ آپﷺ کتنے صفات سے بھرے ہوئے پیغمبر تھے کہ اپنے کیا، غیروں نے شہادت دی ہے: ایسا بہترین انسان روئے زمین پر پیدا نہیں ہوا، ”الفضل ما شہد بہ الأعداء“، فضیلت تو اس وقت ہوتی ہے جس کی شہادت دشمن دے، ہمارے اس پیغمبر کی خوبی کی شہادت دشمنوں نے دی ہے، ایسے صفات اور کمالات نہ آپ سے پہلے کسی انسان میں جمع تھے اور نہ آپ کے بعد کے انسانوں میں جمع ہوسکتے ہیں، چند صفات کا ہم نے تذکرہ بھی کیا،تاکہ ہمارے لیے نمونہ ہو، ہم بھی اُن صفات کو اپنانے کی کوشش کریں،مثال کے طور پر  رسول اللہ ﷺ  کی ایک صفت تھی، قرآن نے فرمائی: وإنک لعلیٰ خلق عظیم. آپ اخلاق کے بلند مقام پر فائز تھے، یہ ہم کو جائزہ لینا ہے کہ ہم اخلاق کے کس سطح پر ہیں؟ ہمارے اخلاق کو دیکھ کر دوسرا آدمی ہم سے قریب ہوتا ہے یا دور ہورہا ہے!! 
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا: کان خلقہ القرآن.آپ کے اخلاق تو سراپا قرآن تھے، قرآن میں جن صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے، عملی زندگی میں رسول اللہ ﷺ کے وہ اخلاق تھے، حضرت انس بن مالک (رسول اللہ ﷺ کے خادمِ خاص) فرماتے ہیں: میں نے انسانوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا اگر کسی کوپا یا تو حضرت رسول اللہ ﷺ  کو پایا،حضور ﷺ نے خود فرمایا: بعثت لأتمم مکارم الأخلاق.میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں، اچھے اخلاق کو دنیا کے سامنے لاؤں۔
حضورﷺ کے دو امتیازی اوصاف: امانت اور سچائی
     حضورﷺ  اخلاق کے انتہائی اعلیٰ درجہ پر پہنچے ہوئے تھے، آپ کی امانت اور سچائی لوگوں میں مشہور تھی، اپنے کیا، دشمن بھی اس کی گواہی دیتے تھے کہ آپ نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی جھوٹ نہیں بولا، صادق کہتے تھے ”ہمیشہ سچ بولنے والا“، امین کہتے تھے ”ہمیشہ امانت دار“، اپنی امانتیں باوجود دشمنی کے لاکر رسول اللہ ﷺ کے پاس رکھتے تھے، ایک تو دعوت ودین کی وجہ سے حضور کی دشمنی، اور دوسری طرف امانت رکھنے کا جب وقت آتا تھا تو کہتے تھے کہ ان سے بڑا امانت دار دنیا میں کوئی نہیں ہے۔
    ابوجہل کو تنہا مشرکین میں سے ایک دشمن نے پکڑلیا، ایک ابوجہل تھا اور دوسرا وہی مشرک تھا، اُس نے کہا: میں آپ سے کچھ پرائیوٹ بات کرنا چاہتا ہوں، ابوجہل بہت بڑا لیڈر، اُس نے کہا: آئیے کیا بات ہے؟ کہا کہ میں تم کو قسم دے کر ایک بات پوچھتا ہوں، صحیح صحیح بتائیے، یہ تباؤ کہ رسول اللہ ﷺ سچے ہیں یا جھوٹے ہیں؟ اس وقت سوائے میرے اور تمھارے یہاں دوسرا کوئی نہیں ہے لیکن قسم دے کر میں تم سے پوچھتا ہوں کہ حضور سچے ہیں یا جھوٹے ہیں؟ اُس نے صاف اور ڈنکے کی چوٹ کہا: میں خدا کی قسم کھاکر جواب دیتا ہوں کہ حضور اپنی بات میں سچے ہیں، توفوراً اُس نے پوچھا کہ حضور سچے ہیں تو تم حضور کی بات کیوں نہیں مانتے؟ ابوجہل نے کہا: میں حضور کی بات مان لوں تو میری قیادت اور سیادت میرے ہاتھ سے چھن جائے گی۔ حضور کی سچائی اُن کافروں کے دل میں بھی تھی، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
آپ ﷺ  کی حکمت ودانائی
    رسول اللہ ﷺ  ایسے دانشور اور عقلمند کہ بڑے بڑے فتنوں کو اپنی حکمت ودانائی سے دبایا، ایک موقع پر جب کعبۃ اللہ کی نئے سرے سے تعمیر ہورہی

  تھی، حجر اسود جو سب سے مقدس پتھر ہے اُس کو اپنی جگہ پر رکھنے کا مسئلہ آیا تو سارے قبیلے لڑائی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، ہر قبیلہ کہتا تھا کہ یہ شرافت اور عزت ہم کو ملنی چاہیے، اُس کو اپنے ہاتھ سے ہم رکھیں گے، لڑائی جھگڑے کی نوبت آئی، سبھوں نے اپنے اپنے ہاتھوں کو خون میں ڈبویا اور کہا کہ جب تک اس شرافت کو ہم حاصل کرکے نہیں رہیں گے، ہم جان کی بازی لگادیں گے، اب جب لڑائی کی آواز اُٹھی اور چاروں طرف سے فسادات کا ڈنکا بج گیا، اُس موقع پر رسول اللہ ﷺ  کی جو حکمت، فراست وذہانت تھی، وہ دیکھنے کی چیز ہے، آپﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے، ہم اس کا فیصلہ کرتے ہیں، ایک چادر منگوائی اور حجراسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے چادر کے درمیان میں رکھا اور ہر قبیلے کے بڑے سرداروں کو بلایا اور کہا کہ چادر کے کنارے کو پکڑئیے اور اٹھائیے، اب ہر قبیلہ یہی کہہ رہا ہے کہ ہم نے لگایا، لگایا کسی نے نہیں، جب پتھر اونچا کیا گیا تو خود نبی پاک ﷺ نے اپنے دست مبارک سے لگایا اور اُس کی جگہ پر رکھ دیا، پوری لڑائی جو لڑی جانے والی تھی، معلوم نہیں کیا ہنگامہ ہونے والا تھا،رسول اللہ ﷺ  کی فراست سے کافور ہوگیا۔
     یہ دانشمندی اور حکمت اور شعور ہے جو ہم کو اسلام سکھاتا ہے، ہمارے اندر اِس شعور کی کمی ہے، بس باتوں باتوں میں یہاں لڑرہے ہیں، وہاں لڑرہے ہیں، چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑے پریشان کن کررہے ہیں، یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ حکمت ودانائی نہیں ہے، مسئلے کو کس طرح سلجھانا اور حل کرنا چاہیے، اس کی کمی ہے، یہ صفت رسول اللہ ﷺ کے اندر بھرپور پائی جاتی تھی۔
     اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان صفات کو اپنانے کی بھرپور توفیق عطا فرمائے اور سچے نبی کی سچی محبت ہم سب کو عطافرمائے۔آمین

«
»

ساگ میں صحت

مسلم بچوں کی تعلیم اور کیریر سازی میں مدارس کا کردار

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے