پولیس نہیں سیاسی دل ہے

شیکھر گپتا سینئر صحافی (سکاڑ مراٹھی 15 ستمبر 2019ء)
ترجمہ و تلخیص: ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین، ناندیڑ(مہاراشٹرا)

کیا بھارت پولیس راج کا ملک ہے؟ اس سوال کے جوابات تین قسم کے ہوسکتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ بدقسمتی سے ہاں، یا پھر ابھی تک تو نہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں پولیس راج کی تعریف واضح طور پر دی ہوئی ہے۔ یعنی شہریوں پر رازدارانہ طور پر نگرانی کرنے والی سیاسی پولیس کے زیر اثر بے لگام قیادت والا ملک ہوتا ہے۔ ہم ابھی ا س حد تک نہیں پہنچے ہیں۔ لیکن کچھ موضوعات کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ بھارتیوں کو ابھی بھی نظرقید ہونے کی طرح محسوس نہیں ہوتا تب بھی ہم اُسی راستے پر جارہے ہیں کیا؟ ایسی حالت ہے۔ پولیس نے خود قانون کو ہاتھ میں لیکر واقعات کررہی ہے۔ پولیس اور سیاسی قائدین کا اتحاد اب انتظامیہ اور عدلیہ کے اداروں پر بالادستی کرنا چاہتے ہیں۔ 
چند مثالیں 
جھارکھنڈ میں تبریز انصاری اس نوجوان کو سائیکل چوری کے الزام میں عوام نے مار پیٹ کر ختم کر ڈالا۔ پولیس نے صرف مارپیٹ کا گناہ داخل کیا۔ اور وہ تبریز کی موت مارپیٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی، ایسا بتایا گیا۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے معائنہ کرنے کے بعد اس قسم کا بناوٹی بیان سامنے آیا۔ راجستھان میں گؤہتیا سے متعلق پہلو خاں کے معاملہ میں تمام ملزمین کو باعزت بری کیا گیا۔ ان تمام لوگوں کی تصویر کو گناہ کرتے وقت کیمرہ میں ان کی حرکتوں کو بند کیا۔ لیکن پولیس نے اسے بطور شہادت کے داخل ہی نہیں کیا۔ ریاستی حکومت نے اب مزید تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔ اُناؤ میں بی جے پی کے ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر کے خلاف ایک لڑکی نے زنابالجبر کا الزام عائد کیا۔ اس لڑکی کو انصاف دینے کے بجائے پولیس نے اس لڑکی کے والد کو گرفتار کیا۔ جس کا انتقال پولیس کی تحویل میں ہوا۔ پولیس نے اسے غیر قانونی ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اب اس معاملہ میں مستغیثہ کو جان سے مارنے کی کوشش کرنے سے متعلق کارروائی کی گئی جن میں پولیس والوں کے نام بھی شامل ہیں۔ بغاوت کا الزام صرف سرکار کی طرف سے لگائے جانے کے باوجود صرف ایک شخص کی شکایت پر سماجی جہدکار شیلا رشید کے خلاف بغاوت کا گناہ رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ 
اس فہرست کو بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار پولیس ہی ہے یہ سچ ہے۔ یہ بہت ہی محنت کی اور نایاب و کمیاب ملنے والی نوکری ہے۔ پچھلے مختلف دہوں میں سیاسی جماعتوں نے ڈریس والے مافیا کہہ کر پولیس کا استعمال کیا۔ اور اس طرح کے پولیس کا بے قاعدہ استعمال کرنے کا فن بڑھ رہا ہے لیکن کیا پوری طرح سے مکمل سچائی ہے۔ پولیس دل اور ا ن کے اعلیٰ عہدیداران آئی پی ایس کو اس کا الزام نہیں دیا جاسکتا؟ پچھلے کئی برسوں میں ہونے والے اور کئی اہم معاملات میں شازوناذر ہی آئی پی ایس عہدیداران عام آدمی کی حمایت میں سیاسی لوگوں کے خلاف کہا ہوگا۔ یا پھر اس قسم کے سیاسی قائدین کے فائدے کی خاطر دوسروں کو ناانصافی کرنے کے لئے انکار کیا ہوگا۔ برخلاف اس کے آئی پی ایس عہدیداران سیاسی نیتاؤں کے سب سے زیادہ لائق اعتماد والے کارکن بن گئے ہیں۔ ایک پرانی کہاوت کے مطابق اگر تم سب کچھ پولیس کے ذمہ کردیں گے تو وہ ڈوری کو سانپ بنائیں گے اور لاکھوں کو اربوں میں تبدیل کریں گے۔ اور اربوں کو صفر میں تبدیل کریں گے۔ (بلاری بندھو) ہجومی تشدد کی مارپیٹ، یکایک قلب پر حملہ بن سکتی ہے۔ مستغیث کے والد پیشہ ور مجرم بن سکتے ہیں۔
پولیس راج کا سنہری دور
پولیس اور سیاسی لوگوں کا اتحاد یہ کوئی نیا نہیں ہے۔ پھر بھی پچھلے دہے میں اسے بہت زیادہ بڑھاوا ملا ہے۔ انا ہزارے کا دلی میں بھرشٹاچار کے خلاف مہم چلانے کے بعد اس میں تیزی آئی ہے۔ اقتدار میں رہنے والوں کو جیل میں بھجاؤ، ایسا ہر ایک کو محسوس ہوتا ہے۔ جس کے لئے اس کا جواب پولیس ہی ہے۔ ایسی تصویر پیدا ہوچکی ہے۔ جن لوک پال قانون مشتبہ پولیس راج کا مسودہ تھا۔ بھرشٹاچار کے خلاف لڑائی لڑنے کے لئے سی بی آئی ایک ہی ذریعہ ہے۔ اس طرح سے دیکھا جانے لگا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ بھیانک ہی نکلا۔ جس کی وجہ سے تغلب و تصرف کرنے والوں کے ساتھ افہام و تفہیم کروانے والی پولیس ان سے زیادہ ہی بھرشٹ بن گئے۔ اس لئے کہ ان کے پاس زیادہ ہی اختیارات آچکے۔ اس واقعات کے بعد سی بی آئی کے چار میں سے تین ڈائریکٹروں کو بھرشٹار کے الزام کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔ یا پھر انہیں نکال دیا گیا۔ اس کے بعد ہی پولیس راج کا سنہری دور وارد ہوا۔ یو پی اے نے اس پولیس دل، سی بی آئی کے ذریعہ اس وقت گجرات کے وزیر امیت شاہ اور ان کے بااعتماد آئی پی ایس آفیسر کے خلاف بناوٹی انکاؤنٹر کی جانب توجہ کی۔ یو پی اے کے احکامات کے مطابق سی بی آئی نے سرکار کے انٹلیجنس بیورو گجرات کے چیف عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کے معاملہ میں تحقیقات کے لئے بلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس معاملہ میں تحقیقات کرنے والا سی بی آئی کا ایک آفیسر تحقیقات کنندہ یو پی اے کے آخری دور میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس کی کی گئی خدمات کے عوض میں اُسے ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر کا عہدہ دینے کا طے کیا گیا تھا۔ لیکن یہ معاملہ میڈیا میں آنے کی وجہ سے منموہن سنگھ سرکار نے اسے واپس لے لیا۔ درمیان کے زمانے میں سیاسی ہوا کا رُخ بدلنے لگا۔ سی بی آئی میں کچھ بڑے عہدیداران کی سن گن خبر لگی اور انکاؤنٹر کے معاملات سے مقدمات کو ختم کرنے میں کچھ وقت نہیں لگا۔ 
مختلف جوان اور ہوشیار آئی پی ایس عہدیداران اپنی نظروں کے سامنے اُصول و خدمت کے جذبہ کو لیکر داخل ہوتے ہیں۔ اس میں سے کچھ لوگ وقت کے اعتبار سے اپنے راستے سے دور چل جاتے ہیں۔ سنگھم بننے کی خواہش کے باوجود انہیں اسپیشل 26 میں کے آفیسر بن جاتے ہیں۔ بھارت اب تک بھی پولیس راج والا ملک نہیں بنا ہے۔ لیکن انڈین پولیس بالخصوص آئی پی ایس یہ سب سے زیادہ سیاسی توڑ جوڑ کی خدمت بن گئی ہے۔ انڈین پولیس نے کے ایم رُستم جی، اشونی کمار، جیولوروبیرو، ایم کے نارائن، کے پی ایس گل، پرکاش سنگھ، اجیت دوبال، ایم این سنگھ، اور دیگر کئی افسران دیئے ہیں۔ ان عہدیداروں نے اپنی خدمات کے دوران اخلاقی او رپیشہ ورانہ نمونے قائم کئے۔ اب اس وقت عہدیداران میں ایسے کوئی بھی نہیں ہیں۔اور اب آئی پی ایس نے خود کو بدقسمتی سے انڈین پولیٹیکل سرویس میں تبدیل کرلیا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

نبی اکرمؐ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام

انصاف کے مندر میں ایک تاریخی مسجد کا کیس کیا سچائی دیکھ پائے گااندھاقانون؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے