مسلمان نہیں،ملک کے لئے خطرناک ہے این آرسی کے نام پر دہشت کی سیاست

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

      جلپائی گوڑی (مغربی بنگال) کے صدر بلاک میں بہادر گرام پنچایت کے سردار پاڑہ میں صابر علی (32)نے این آرسی کے دہشت میں خود کشی کرلی۔ وہ پیشے سے کسان تھا۔  پچھلے کچھ دنوں سے، صابر اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کا نام آدھار کارڈ میں درست کروانے کے لئے مختلف سرکاری دفاتر کے چکر لگا رہا تھا۔ قریب سات دن گزر جانے کے بعد بھی، آدھار کارڈ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تو وہ ذہنی طور پر ٹوٹ گیااور گھر کے سامنے ایک کنویں میں کود کر اپنی جان دے دی۔ چیخ و پکار کی آواز سن کر موقع پر پہنچنے والے افراد نے نعش کو کنویں سے برآمد کرلیا اور پوسٹ مارٹم کے لئے جلپائی گوڑی سپر اسپیشلٹی اسپتال بھیجاگیا۔متوفی صابرعلی کے چچا نے بتایا کہ اس کا بھتیجا گذشتہ کئی دنوں سے این آر سی کی دہشت میں تھا۔ اسی وجہ سے اس نے خودکشی کی ہے۔واضح ہوکہ بنگال کا یہ علاقہ آسام سے قریب ہے اور متوفی شخص کے پورے گاؤں میں این آر سی کے امکان کے سبب خوف و ہراس ہے۔ ہر خاندان این آر سی کے نام پر خوفزدہ ہے۔ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ دھوپگوڑی کے نمبر 15 وارڈ کے علاقے برمن پاڑہ میں پیش آیا۔ متوفی کا نام شیامل رائے (36) ہے۔ وہ پیشے سے ایک ڈرائیور تھا۔ متوفی کی اہلیہ مایانتی رائے نے بتایا کہ پچھلے کچھ دنوں سے اس کا شوہر این آر سی کی وجہ سے پریشان تھا۔ ملک سے بے دخل ہونے کے خوف سے،اس کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔ ایک طرف بیماری اور دوسری طرف درست کاغذات کی عدم دستیابی کی وجہ سے شیامل ذہنی طور پر ٹوٹ گیا تھا۔ اس دوران جنوبی چوبیس پرگنہ کے فالتا علاقے میں عبدالخالق ملا(25)نے بھی این آرسی کے خوف سے موت کو گلے لگالیا۔ اعدادوشمار کے مطابق مغربی بنگال میں اب تک این آرسی کی دہشت سے کم ازکم گیارہ افراد کی موت ہوچکی ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سرکاری کاغذات مکمل کرنے کے لئے لمبے ٹائم سے لائن میں لگے ہوئے تھے اور غش کھاکر گرپڑے پھر موت سے ہمکنار ہوگئے۔ واضح ہوکہ کلکتہ کارپوریشن میں کاغذات درست کرانے اور پرانے کاغذات حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ اسکولوں میں لوگ بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں اور پرانے سرٹیفکٹ وکاغذات حاصل کررہے ہیں۔ سرکاری دفاتر کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور لائنوں میں کھڑے کھڑے لوگوں کا برا حال ہورہا ہے۔ وزیراعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی نے کہہ دیا ہے کہ ان کے رہتے بنگال میں این آرسی نہیں آسکتی مگر باوجود اس کے عوام میں دہشت کم نہیں ہورہی ہے۔ یوں تو این آرسی کے امکان سے مسلمان زیادہ دہشت زدہ ہیں مگر ہندووں میں بھی خوف کم نہیں ہے۔حالانکہ امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ پناہ گزیں ہندووں کو بھی ملک سے باہر نہیں کیا جائے گا۔

 مہاراشٹر میں بھی این آرسی؟
    ایک خبر یہ گردش میں ہے کہ آسام کے بعد مہاراشٹرا حکومت بھی این آر سی لانے والی ہے۔حالانکہ اس خبر کی تصدیق حکومت کی جانب سے نہیں کی گئی ہے۔میڈیا کی خبروں کے مطابق، مہاراشٹر کی فڈنویس حکومت نے ریاست میں اصل شہریوں کی شناخت کے لئے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت، ریاست میں موجود غیر قانونی شہریوں کے لئے حراستی مرکز بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق مہاراشٹر حکومت کی وزارت داخلہ نے نوی ممبئی پلاننگ اتھارٹی سے ایک حراستی مرکز کی تعمیر کے لئے زمین دینے کو کہا ہے۔ فڈنویس حکومت کے اس اقدام کے ساتھ ہی یہ قیاس آرائی چل رہی ہے کہ آسام کی طرح مہاراشٹر میں بھی این آر سی لانے کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔یہ خبر سامنے آنے کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور مہاراشٹر کی بعض مسلم تنظیموں نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے لیگل کاغذات اور سرکاری دستاویزات کو درست کرالیں۔اس کے لئے اسکولوں میں کیمپ لگائے جارہے ہیں اور لوگوں کو مشورے دیئے جارہے ہیں۔ 
 مسلمان خوف زدہ کیوں؟
     راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے آسام میں NRC سے ناموں کے اخراج کے تعلق سے لوگوں کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش میں کہا ہے کہ کسی بھی ہندو کو ملک نہیں چھوڑنا پڑے گا۔ بھاگوت نے سنگھ اور اس سے وابستہ تنظیموں کی بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی ایک مٹینگ کے دوران یہ بات کہی۔کوآرڈینیشن میٹنگ کے بعد سنگھ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ موہن بھاگوت جی نے واضح کیاہے کہ کسی بھی ہندو کو ملک چھوڑنا نہیں پڑے گا۔وزیرداخلہ امت شاہ بھی اس قسم کا بیان دے چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے بیانات خاص طور پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کر رہے ہیں۔واضح ہوکہ این آرسی کے سبب پورے ملک میں خوف ہے۔ مرکزی حکومت خاموش ہے مگر بی جے پی کے لیڈران کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ آسام کے بعد پہلے مغربی بنگال میں این آر سی لایا جائے گا اور پھرپورے ملک میں لایا جائے گا۔ بھاجپائی لیڈران کی طرف سے شہریت (ترمیمی) بل پر لانے کی بات پر بھی زور دیا جاتا رہا ہے جس کے تحت این آرسی سے باہر رہنے جانے والے ہندووں کو تو بھارت کی شہریت دی جائے گی مگر مسلمانوں کو نہیں دی جائیگی۔
یوپی میں بھی آرہا این آرسی؟
    کیا اترپردیش میں بھی آسام کی طرح این آرسی کو نافذ کیا جائے؟ کیا آسام میں اپنے ہاتھ جلاچکی بھاجپا،اسے دوسری شکل وصورت میں اب یوپی میں لانے کی تیاری میں ہے؟یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ حال ہی میں پولس کی طرف سے ایک آرڈرجاری ہوا ہے جس میں پوری ریاست میں غیرملکیوں کی شناخت کرنے کی بات کہی گئی ہے۔اس حکم کے بعد خاص طور پر ریاست کے مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے جو پہلے ہی سے این آرسی کی افواہوں سے دہشت زدہ ہیں۔اطلاعات کے مطابق اترپردیش پولیس سے بنگلہ دیش اور دیگر غیر ممالک کے شہریوں کی شناخت کرنے کو کہا گیا ہے تاکہ ان کی حوالگی کی جاسکے۔ اترپردیش کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس او پی سنگھ نے ضلعی پولیس عہدیداروں کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی داخلی سلامتی کے لئے یہ قدم بہت اہم ہے۔ تاہم انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس تازہ ترین اقدام کا NRC سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیا واقعی آئے گا این آرسی؟
    اب تک مرکز کی نریندر مودی سرکار کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہیں آیاہے جس میں یہ کہا گیا ہو کہ حکومت ملک میں این آرسی لانے کا ارادہ رکھتی ہے مگرآسام میں این آر سی کی حتمی فہرست کے بعد، اب ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی بھگوا حلقے کی طرف سے اس کا مطالبہ زورپکڑنے لگا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی لیڈروں نے اس کے حق میں آواز بلندکی ہے۔ جب کہ اس کے مخالفین مختلف دلائل کے ذریعے NRC کو خارج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرناٹک، جھارکھنڈم ہریانہ اور دہلی میں این آرسی لانے کی بات اٹھ رہی ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو یوپی میں بھی این آرسی لایا جائے گا جب کہ جھارکھنڈ کے بھاجپائی وزیراعلی پہلے ہی اس کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ ادھر ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر کھٹر نے بھی این آرسی لانے کا انتخابی وعدہ کیا ہے، جب کہ دلی میں این آرسی کے موضوع پر بھاجپا اور عام آدمی پارٹی کے لیڈران دست بہ گریبان ہیں۔ بہار میں بھی جنتادل یو اور بھاجپا کے بیچ اس موضوع پر اختلاف رائے ہے۔
اگر این آرسی آیا۔۔؟
    سوشل میڈیاپر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ آسام کے بعد کسی بھی ریاست میں این آرسی لانے کی بات نہیں تھی مگر مسلمانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس معاملے میں خوب افواہیں پھیلائیں۔ایک دوسرے کو واٹس ایپ پیغامات بھیجے اور نہ صرف خود دہشت زدہ ہوئے بلکہ دوسروں کو بھی دہشت زدہ کیا۔ بعض مولوی صورت حضرات نے بھی ویڈیواور آڈیو پیغام کے ذریعے اس دہشت میں اضافہ کیا۔ اس پوری صورت حال پر حکومت اور بی جے پی کی نظر تھی اور اسے لگا کہ مسلمانوں کی طرف سے دیا گیا یہ آئیڈیا تو بہت خوب ہے۔ بھاجپا دہشت کی سیاست کرتی رہی ہے اور مسلمانوں نے اپنی نادانی سے اسے اس کا ایک اچھا موقع فراہم کردیا ہے۔بہرحال اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پورے ملک میں این آرسی لایا جائے گا یا محض مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے اس کا استعمال ہوتا رہے گا؟میرا ماننا ہے کہ مسلمان جس طرح سے دہشت زدگی کا اظہار کر رہے ہیں وہ خود ان کے لئے ہلاکت خیز ہے اور ان کے بعض مبینہ لیڈران جس قسم کے بیانات دے رہے ہیں وہ بھی ٹھیک نہیں۔ اگر حکومت مسلمانوں کو غیرملکی قرار دینے پر اتر آئے تو کوئی سرکاری دستاویز کام نہیں آئے گا۔ آسام میں ہم نے دیکھا کہ جس شخص نے کرگل کی جنگ میں حصہ لیا وہ غیرملکی قرار پایا اور سابق صدر جمہوریہ فخرالدین علی احمد کے اہل خاندان بھی این آرسی کی لسٹ سے باہرہوگئے۔ میرے خیال سے اگر خدانخواستہ این آرسی آیا تو مسلمان سمیت ملک کے تمام سیکولر اور محب وطن شہریوں، سیاسی جماعتوں اور عوامی تنظیموں کو اس کے بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہئے کیونکہ یہ ملک کو تقسیم کی راہ پر لے جانے والی بات ہوگی۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

فلسطین، مسلم ممالک اور مسجد الاقصیٰ کا میزبان ہے

رام،رامائن، دسہرہ اور ہند۔اسلامی تہذیب کے نقوش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے