ترا ہر فیصلہ برسوں میں سنوائی سے بہتر ہے

                                        شفاء اللہ ندوی 
                            صدر سفینہ ایجوکیشنل اینڈ چاریٹیبل ٹرسٹ 

                                   
     یکم اکتوبر ۹۱۰۲؁ء کو ہندوستان کی تاریخ میں یہاں کی عدلیہ کے تناظر میں یعنی یہاں کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے دیے گئے ایک فیصلے کی شکل میں ایک اور نیا باب اس وقت شامل ہوگیا،جب اس (عدالت عظمیٰ) نے دفعہ 370 کی تنسیخ کو چیلنج کرنے اورمرکزی حکومت کے اس فیصلہ پر روک لگانے کے لیے داخل کی گئی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے یہ کہہ کر لوگوں کو حیران کردیا کہ یہ دفعہ غیر قانونی طورپر توڑا گیا ہے، مگر اس پر فوری طور پر روک نہیں لگائی جاسکتی!! اس لیے مرکزی حکومت اس فیصلے کے حوالے سے اپنے حق میں مطلوبہ دلائل چارہفتوں میں عدالت عظمیٰ کو سونپ دیں،گویا دفعہ کو منسوخ کیے جانے کے حوالے سے دی گئی درخواستوں پر سماعت کے بعد متعلقہ مقدمہ کی کارروائی ۴۱/نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی،حیران کن بات یہ نہیں ہے کہ عدالت تاریخ پر تاریخ دیے جارہے اور فیصلہ میں حد سے زیادہ تاخیر ہورہی ہے،کیوں کہ یہ عدالت کا دستور سا بن گیا ہے کہ مجرم کو سز ادینے میں اتنی تاخیر کی جاتی ہے کہ مظلوم کو صبر وقرار آجاتا ہے،یا عشرت جہاں کی ماں کی طرح مقدمہ لڑنے کی ہمت  ہی مدعی حضرات کھودیتے ہیں،بلکہ محیر العقول امر یہ ہے کہ غیر آئینی طریقہ پر دفعہ تین سوستر کی منسوخی کی بابت ۵/ اگست ۹۱۰۲؁ کو پاس کیا گیا ”جموں و کشمیر تنظیم نو بل“۱۳/ اکتوبر ۹۱۰۲؁ء کو نافذ ہوجائے گا اور اس کے بعد اگلے ۴۱/دنوں بعد عدالت عظمیٰ متعلقہ مقدمے کی سماعت کر رہی ہوگی تو کیا نتیجہ اصول کے مطابق سامنے آپائے گایا ”دلوں پے خوف کے سائے لبوں پہ قفل سکوت“ کے مصداق مصنفان عدالت عظمیٰ مرکزی حکومت کے دباؤ میں تاریخ کی مسلسل تبدیلی کا کھیل کھیلتے رہیں گے  یا اپنی اور اپنی کارگا ہ کی عزت کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کے عوام وخواص کے متزلزل اعتماد کو سنبھال سکیں گے،یا پھر یکسر قانون کی بالادستی کو ثابت کرنے کی اپنے اندر ہمت پیدا کرکے لوگوں کے ساتھ ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس معصوم بن کر پھرنے والے اخلاقی مجرموں اور ملک کے سوداگروں کو یہ احساس دلا پائیں گے کہ جس قانون کی کتاب پر ہاتھ رکھ کر سیاست داں نے پارلیامینٹ میں قسم کھائی ہے اس کا پاس و لحاظ یہ ہے کہ وہ اس کی روشنی میں اپنے سارے سیاسی کاموں کو انجام اور تمام طرح کی انتقامی سیاست کی سرگرمیوں کو بجالائیں،کیو ں کہ وہ یعنی جمہوری ملک ہندوستان کا قانون ان کے تمام قسموں کے اثرورسوخ اور ان کی ہر طرح کی دسترس اور پہونچ سے بالاتر ہے،یہ وہ آئینہ ہے جس میں وزیر اعظم سے لیکر عوام تک،تمام افراد کی قانون پر عمل کرنے اور اس کی خلاف ورزی کرنے کے باب میں ایک ہی تصویر دکھائی دیتی ہے،اور وہ یہ ہے کہ کس کا کام اصول کے مطابق ہے اور کس کا نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انتقامی سیاست کے اس دوڑ میں یہ قانون کبھی امت شاہ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلتا ہے تو کبھی پی چدمبرم کو جیل بھیجنے میں صاحب اقتدار پارٹی کی مدد کرتی ہے،مگر بدقسمتی سے الیکشن سے لے کر عدالت عظمیٰ تک پر موجودہ مرکزی حکومت کا دباؤ ادھر کئی سالوں سے صاف صاف محسوس کیا جاسکتا ہے،چنانچہ ۵/ اگست ۹۱۰۲؁ء کوملک کے سب سے حساس مسئلہ پر عدالت عظمیٰ میں پیش کی گئی درخواست اور اسی روز مرکزی حکومت کے خلاف کیے گئے مقدمے پر آج تک مناسب اور دو دو چار قسم کی کارروائی نہیں ہوسکی،یہی وجہ ہے کہ آج دوماہ بعد کشمیر کی صورتحال معمول پر نہیں لوٹ سکی ہے، لاکھوں بے روز گار انسان وہاں کے حالات کی بہتری کی تاک میں منتظر اور سراپا انتظار بنے بیٹھے ہیں،اس لیے نہیں کہ ان کو ملازمتیں نہیں ملی ہیں، بلکہ اس لیے کہ ان کے اچانک آجانے سے کئی مسائل الجھے ہوئے رہ گئے ہیں،مگر حیرت ہے کہ ابھی بھی اس درخواست پر صحیح طریقہ پر عمل نہیں کیا جاسکا  ہے،  جب کہ مقصد اس درخواست کا صرف یہ تھا کہ فوری طور پر مرکزی حکومت کے اس غیر آئینی طریقے سے کیے گئے فیصلے پر روک لگتی پھر اس کے بعد اس  کے خد وخال پر گفتگو کی جاتی، اور یہ کام اس فیصلے کے نفاذ سے پہلے ہی ہر طرح  مناسب تھا، کیوں کہ جب جل گئی کھیتی تو برسات کس کام کی!اگر عدالت  نے کسی ساسی دباؤ کا بوجھ اپنے کندھے پر شاید نہ لیا ہوتا تو کسی حکمت و مصلحت کی شکار نہ ہوتی تو  جو فیصلہ اسے ۴۱/ نومبر کو دینا ہے وہی فیصلہ وہ یکم اکتوبر۹۱۰۲؁ء کو دے سکتی تھی،فیصلہ کسی کے حق میں ہوتا اور کسی کے خلاف ہوتا،یہ اس وقت بھی ہوتا اور یہی نوعیت فیصلے کی اس وقت بھی رہے جب چودہ نومبر کی تاریخ کو فیصلہ سامنے لایا جائے گا،تو پھر تاخیر کس بات کی؟ عدالت اپنے فرض منصبی کو بروقت نبھالیتی تو شاید آج لوگوں کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ   
                    میرے منصف مجھے انصاف دے یا دے سزا مجھ کو 
                    ترا  ہر فیصلہ  برسوں میں  سنوائی سے  بہتر ہے  

 

    ایک ٹی وی ڈیبیٹ میں جس میں بی جے پی کے ترجمان  اور جو جی میں آئے بولو کے مصداق سمبت پاترا کے علاوہ مختلف مقامات سے جڑنے والے اور بھی کئی لوگوں کو ایک ٹی وی اسکرین پر دیکھا،اس مباحثہ میں حصہ لینے والوں میں ایک تعلیم یافتہ کشمیر ی نوجوان جو قانون سے اچھی خاصی واقفیت کا حامل تھا شریک  تھا،وہ اصول سیاسات کی روشنی میں گفتگو کررہا تھا مگر کچھ لوگ اپنی منطقی صلاحیت  سے غیر تشفی بخش انداز میں مات دینے کی کوشش کررہے تھے،میں پوری توجہ سے ڈی بیٹ کو صرف اس لیے سن رہا تھا کہ میں نے بچپن میں مولوی اسماعیل میرٹھی ایک نظم میں پڑھا تھا کہ 
                    بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت 
                    نہیں کام  آتی  دلیل  اور حجت
بالکل مرغا اور لومڑی کا سا واقعہ ٹی وی پر مجھے من وعن دکھائی دے رہا تھا،ٹی وی اینکر حسب راویت سوچی سمجھی اور پہلے سے طے شدہ  ذہنیت کے ساتھ پروگرام کی اینکرنگ رسما کررہی تھیں،اور ڈی بیٹ آخر کار اس موڑ پر پہونچا جہاں سمپت پاترا جیسے لوگوں کی شرکت سے پہونچنی چاہیے،وہ شخص جس کو ڈی بیٹ میں شریک اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ اپنی رائے اور دفعہ تین ستر کی منسوخی کے جمہوری طریقے کیا ہیں اور آئین ہند میں اس کی مقررہ حیثیت سے اس کے ساتھ سلوک کی نوعیت سیاست اور جمہوریت کی اخلاقیات کی روشنی میں کیا ہونی چاہیے تھیں،نہایت سنجیدگی کے ساتھ دے، سو وہ دینے کی کوشش کر رہاتھا، مگر اس کو شاید موقع مل نہیں پا رہا تھا یا نہیں دیا جارہا تھا یا وہ کہہ نہیں پار ہا تھا یا اسے حسب روایت سابقہ کہنے نہیں دیا جارہا ہے یہ حقیقت سب کی نظر وں میں آچکی ہوگی اس لیے اس پر مجھے کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،تاہم اس کا یہی کہنا تھا کہ جب مرکزی حکومت نے ”۵/اگست ۹۱۰۲؁ء کو جموں و کشمیر میں جمہوریت کا خون کرکے دفعہ کی منسوخی غیر آئینی طریقہ پر کی تو عدالت عظمی ٰ میں اس امید میں ریاست کے تمام باشعور سیاسی سدھ بدھ رکھنے والے ذمہ دار  ہستیوں نے عدالت کے تمام تر اخلاقی تقا ضوں اور ملک کے آئین کی روشنی میں درخواستیں صرف  اس لیے دی تھیں کہ غیر آئینی طریقہ پر کیے گئے اس فیصلے پر روک لگائی جاسکے، بے چین  اور مظلوم ہندوستانی شہریوں کو یہاں کشادہ دل جمہوریت اور انصاف پسند عدالتوں میں انہیں انصاف مل سکے،اس لیے انہوں نے اپنے سیاسی مدعوں کو نہایت صفائی کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی عدالت جہاں ہر انسان آخری امید کے طور پر انصاف کی تحصیل کے لیے جاتا ہے، سامنے رکھا،کیوں کہ کسی بھی ملک کی عدالت ہو خواہ صوبائی ہویا مرکزی صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ اپنے وطن کے لوگوں میں مظلوموں کے درد کو سنے اور ظالموں کو سزا دے،اسی طرح اگر شہریوں کی لگام اصول کی خلاف ورزی کی وجہ سے کسے تو دوسری طرف وزیروں اور قانون سازوں کو بھی متعلقہ اصولوں سے سرموئے انحراف کرنے کی پاداش میں عدل وانصاف کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے، سچا آئینہ دکھا ئے اور انہیں ان کی اوقات یاد دلائے۔عدالتوں میں لے جائی جانے والی شکایات دو نوعیت کی ہوتی ہیں ایک وہ جن پر فیصلے اور صلح صفائی فوری طور پر مطلوب ہوتی ہیں،جب کہ دوسری نوعیت کی شکایات وہ ہوتی ہیں جن پر نہایت سنجیدگی اور معاملات کی تحقیق اور تفتیش کے بعد فیصلے دیے جانے مطلوب ہوتے ہیں۔اب وقت کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شکایت کی نوعیت پر حکیمانہ نظر رکھ کر فیصلہ دینا اور فیصلہ کی ترتیب بدلنا ا دانش مند منصفوں کا کام، عقلمند و ں کی پہچان اور جانکار ڈاکٹروں کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی شخص کا سر اور پیر دونوں یکبارگی اگر زخمی ہوجائے توسر کا علاج پہلے اور پاؤں کا علاج دوسرے نمبر پر کرنا ڈاکٹر کی عقلمندی اور اس کی سچی اور مخلصانہ دانشوری کی دلیل ہے جب کہ پاؤں کا علاج یہ سوچ کر کرنا کہ تاخیر سے چلنے کی سہولت مسلوب ہوسکتی ہے اور اس لیے سر کے علاج میں تاخیر کردینا یہ مریض  کے پاؤں سے ہمدردی کے نام پر اس کی زندگی سے عنا دو دشمنی کا غماز ہے۔حالانکہ کم سے کم عقل کا حامل شخص یہ تو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاؤں کے بغیر عذر کے ساتھ ہی سہی انسان زندہ ضرور رہے گا جب کہ سر کے بغیر اچھے پاؤں کے باوجو د زندہ نہیں رہ سکتا۔اس لیے عذر کے ساتھ زندہ رہنا بہتر اور بہر صورت افضل ہے قبل از وقت اعضائے جسمانی کی حفاظت میں مرجانے سے۔

 

    ۵/ اگست کو جو بھی ہوا وہ سرکے زخم سے کم نہیں تھا، کیوں کہ پانچ لاکھ سے زائد بیرونی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، طلبا اور مزدور اگر ایک طرف پریشان دکھائی دے رہے تھے تو دوسری طرف وہا ں کے مقامی لاکھوں افراد پریشان تھے، کیوں کہ انسانی زندگی کی تمام سہولیات معدوم ہورہی تھیں، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے علاوہ موبائل جو اب انسانی زندگی کا حصہ بن چکا ہے مطلوبہ خدمات کی فراہمی سے قاصر تھے،ہر طرف ہل چل، بے یقینی، عدم اطمینانی،ذہنی انتشار، تا حد نظر مایوسی،سنا ٹا اور ایک طرح کا خوف نظر آرہا تھا۔جس ایک طرف جمہور یت کا خون ہورہا تھا تو دوسری طرف ریڈیو مختلف قسم کی تقاریر نشر کی جارہی تھیں، اس سے پہلے جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے کئی سیاسی مقتدر لوگوں نے میڈیا میں مسلسل بیانات دے رہے تھے کہ فلاں موضوع سے کوئی تعلق نہیں، کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ، وغیرہ وغیرہ جیسے خطابات سے آئین ہندکی دھجیاں مکارانہ طور پر اُڑائی جاچکی تھیں،ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت بیرونی ریاستوں کے مقیم افراد کو مشورے بھی خوب دے رہی تھی جس سے فضا میں ایک طرح کا اور تکدر پیدا ہورہاتھا،ایسے پر آشوب حالات اور نہایت خطرناک اور گھٹا ٹوپ صورت حال میں جب عدالت عظمی ٰ کادروازہ کھٹکھٹا یا گیا تو اس پر اپنے احترام و اور اپنی عزت کے بقا کے لیے لاز م تھا کہ وہ صورت حال کا جائزہ اپنے چند مخصو ص افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر اور انہیں جائے واردات پر بھیج کر لیتی،ارباب اقتدار اور مرکزی حکومت کو آئینہ دکھاتی اور نعرہ عدالت مذکورہ لگاتی رہی ہے کہ غیر آئینی طریقے پر دفعہ کی منسوخی عمل میں آئی ہے اس کو پوری قوت اور قانوی اہلیت کے ساتھ اُٹھاتی اور مرتکبین کو آئین ہند کا درس دیتی۔اس طرح نہ صرف یہ کہ ملک کے حالات میں بے چینی کا کوئی عنصر نہ سماتا اور وادی میں صورتحال اتنے غلط رخ پر نہ چلی جاتی،بلکہ جو بھی فیصلہ عدالت عظمی ٰ کا ہوتا اس پر عمل کرنے پر لوگ مجبور ہوتے،انتظار اور شکست انتظار کا یہ نہ تھمنے والا سلسلہ یہاں تک دراز نہ ہوتا، عدالت عظمیٰ کے دائرہ کار اور اس کے اختیارات کو کبھی علم سیاسیات کی کتابو ں میں طالب علمی کے زمانے پڑھا تھا اسی لیے ۸/ اگست تک ہم اور ہمارے جیسے تمام پڑھے لکھے لوگ، سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کے حوالے سے بڑی شدت سے منتظر تھے،اس فکر میں تھے کہ اگر فیصلے پر روک لگ جائے جیسا کہ عدالت کہہ رہی اور بار بار کہہ رہی ہے، اور مرکزی حکومت جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کی نفسیاتی الجھن سے باہر آنے کا نام نہیں لے رہی ہے،اُسے نہ صرف اپنے اقتدار کے نشے سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ اس فیصلہ پر بھی روک لگادی جائے گی، اس طرح حالات جوں کے  توں پر امن رہیں گے، نہ تعلیم متاثر ہوگی نہ کاروبار، نہ ملازمت کھٹائی میں پڑے گی نہ فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت ہونے والے امتحانات،مگر مرکزی حکومت کے مطلق العنانہ اور جمہوری اخلاقیات کے خلاف اس فیصلے کے سامنے سپریم کورٹ بے بس نظر آئی اور اس نے وہی فرسودہ طریقہ تاریخ دہی پر عمل کرتے ہوئے اس حساس اور نازک مسئلہ پر بھی تاریخ پر تاریخ کا قصہ پارینہ دہرا نا شروع کیا، منصفان عدالت عظمیٰ معاملہ کی نزاکت سے وافقیت کے باوجود نہایت برق رفتاری سے متعلقہ معاملہ کو اولیت اور ترجیح دے کر سلجھانے کی مطلوبہ کوشش نہیں کی، انٹر نیٹ اور موبائل کے اس دور میں ان پر پابندی کے بارے میں قانون کے ان رکھوالوں نے اپنے لب نہیں کھولے،نیززیرکی اور ہوش مندی سے ایک منجھے ہوئے حکیم کی طرح دفعہ کی منسوخی اور اس سے جڑے تمام غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے حوالے سے ضروری اور مضبوط کارر وائی کرکے مناسب  اور متوازن فیصلہ اصولوں کی روشنی میں عدالت نے نہیں لیا۔افسو س اس بات کا ہے کہ یہ کام عدالت عظمیٰ کے ذریعہ نہ اس وقت ہو سکا اور نہ یکم اکتوبر ۹۱۰۲؁ کو ہوا،جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی کے علاوہ سپریم کورٹ کے حوالے سے وابستہ امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ جس سے وادی میں ایک طبقہ کے دلوں میں  ایک طرف ا گر یہ عزم پیدا ہونے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے کہ 
    اب ہوائیں ہی  کریں گی  روشنی کا  فیصلہ 
    جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا ر ہ جائے گا 
تودوسری طرف ملک کے سوا سو کروڑ دیش واسیوں کو یہ یقین ہونے لگا ہے خواہ مثبت یقین ہو یا منفی کہ Might is rightیعنی جس کی لاٹھی اسی کی بھینس۔گویا انٹر نیٹ اور موبائل کے حوالے سے لب کھولنے کی آج ۳۶ویں دن بھی کسی غیرت مند بااختیار ادارے سے بھی زحمت نہ ہو سکی،حالانکہ سپریم کورٹ کے لیے اس وقت ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جب کہ یہ ملک اپنی جمہوری شناخت سے ہٹ کر ڈکٹیٹرانہ رخ پر بڑی تیزی سے گامزن ہے، اپنی بالادستی کو قائم کرنے کا نہایت سنہرا موقع تھا کہ ان امور پر سختی سے حکومت کو کاربند کر واکر اپنی بالاداستی کا ثبوت پیش کردیتی اور ملک کے کروڑوں شہریوں کا مطلوبہ اور خوشگوار اعتماد حاصل کرنے میں  سوفیصدی کامیاب ہوجاتی۔

 

    ہائے افسوس!مسیحا درد کے ہمدرد نہ ہوکر مریض کے ہمدرد ہوپاتے! منصفان عظام خود کو عام شہریوں اور مدعیوں اور دکھی لوگوں کے پائے دان پر آکر کبھی  تو سوچتے! فیصلے دینے میں جتنا ممکن ہوتا جلدی سے کام لے لیتے!تو شاید ملک کا نقشہ آج ستر سالو ں میں بالکل بدل گیا ہوتا،جرائم کے سارے دروازے مسدود اور اخلاقی بے راہ روی کے تمام راستے مسدود ہوگئے ہوتے، مجرم کو سزا اور مظلوم کو انصاف دلانا ایک کامیاب اور بااخلاق معاشرہ کی بنیاد رکھنا تصور کیا گیا ہے، اگر یہ سچ ہے تو صالح معاشرہ کو منصہ شہود پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس طرح کے معاشرہ کے قیام کی باضابطہ فکر کی جائے،کیونکہ جب صالح معاشرہ کی بنیاد رکھی ہی نہیں جائے گی تو اس معاشرہ میں پلنے اور پرورش پانے والے افراد میں صالحیت و نافعیت کا تصور کرنا فضول  اور ایک لایعنی عمل ہے ،ایک کبھی نہ شرمندہئ تعبیر ہونے والا خواب ہے،سزااور جزا میں عدل و انصاف کسی بھی معاشرہ کو جنت بنا سکتا ہے،بشرطیکہ فیصلہ حق بجانب کیا گیاہو اور بروقت کیا گیا ہو،جب کہ عدالت نے اپنے بنیادی کام بغیر کسی بیرونی دباؤ کے انجام دیا ہو،ورنہ عدالت کے قیام کا مطلب چند مخصوص طبقے کے لوگوں کو فائدہ اور نفع پہونچانے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔جب کہ عدالت کے اس غیر منصفانہ عمل سے پورا معاشرہ لعنت الٰہی کا شکار ہوجاتاہے۔بقول راہی بستویؔ
                زلزلے بھی آتے ہیں،آندھیاں بھی آتی ہیں 
                حق  سے جب عدالت کا فیصلہ  نہیں  ہوتا 
    مرکزی حکومت ترقیات کے نام پر جو کچھ کررہی ہے،اس حوالے سے ملک کا ایک ایک شہری واقف ہے،ان واقف کارو ں میں ان کے اپنے بھی ہیں اور پرایے بھی، ہمارے جیسے اردو کے اساتذہ بھی ہیں اور ہندی ادھیاپک بھی،تعلیم کے نام پر ہونے والی ترمیمی کارروائیاں کہیں خوشی کہیں غم کے مصداق ہرجگہ ثابت ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔برسر اقتدارپارٹی کے ممبران اپنے منشور کے تحت غریبی مٹاؤ پر عمل کرتے ہوئے ۵/اگست کو ہی لاکھوں مزدوروں کو سڑک پر لاکر چھوڑد یا جبکہ پرائیویٹ اسکولوں میں کام کرنے والے اردو،عربی اور حساب کے اساتذہ کا تو بیڑہ اس طرح غرق ہوا کہ ان کو انہی کے ایڈوائزری پر وہاں سے اپنے وطن لوٹنا پڑا،اب جب کہ حکومت نے وادی کے پرائیویٹ اداروں کو کام کرنے اور انہیں کھولنے کی ہدایت دے دی ہے تواب حالات کے پیش نظر وہاں کے مستاجرین یعنی اسکولوں کے مالکان انہیں ابھی دعوت انسلاک اور دوبارہ اپنی ذمہ داری سنبھالنے کی تکلیف نہیں کرپارہے ہیں،اس پہلوسے بھی نقصان کسی سیاست دا ں کانہیں بلکہ ملک کے متوسط طبقے کو ہے۔بقول شاعر 
                تمہارے ہاتھ جب سے آگیا نظام مے  کدہ 
                جوپیاسے تھے وہ لوگ اور پیاسے ہوکے رہ گئے 
     رہی عدالتیں تو ان کو ہر طرح کے سیاسی اور غیرسیاسی چودھریوں کے چوکھٹوں سے آزاد ہونا چاہیے کیوں کہ قانون کی نظر میں کوئی بڑا کوئی چھوٹا نہیں ہوتا، انصاف کا پیمانہ اکہرا ہی ہوتو معاشرہ اور ملک کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے ورنہ اس کے معیار میں اگر دوہرا پن آجائے یعنی غریبو ں،غیر سیاسی لوگوں اور مجبور ولاچار افراد کے لیے انصاف کے الگ پیمانے وضع کیے جانے لگیں اور سیاسی بازی گروں اور اثر ورسوخ کے حاملین کے لیے عدل کے الگ پیمانے قائم کیے جا نے لگیں تو معاشرہ بے کلی اور بے چینی کا نہ صرف شکار ہو جائے گا بلکہ پورا ملک مظلوموں کی آہوں کی نذ ر ہوجائے گا، آسمانی قہرو غضب اور خدائی مار سے پھر انسانیت کا کوئی طبقہ محروم نہیں رہ پائے گا، بے گناہ بھی لپیٹ میں آئیں گے اور گناہ گا ر بھی، پھر نہ آقا رہیں گے اور نہ غلام،نہ خریدار بچ پائیں گے نہ تاجر، منصف بچ پائیں گے نہ مجرم کو کسی کروٹ چین نصیب ہوپائے گا اور نہ سیاسی فرقہ پرستوں کی دکانیں  سدا چمک سکیں گی۔جب کہ تمام قسم کے آفس نشیں کاروباری بھی صفحہ ہستی سے یقینا مٹ جائیں گے۔اس لیے عدالت عظمی ٰ ملک کے تمام سلگتے ہوئے مسائل جو ملک،ملک کے شہریوں،اور ملک کے آئین کے خلاف اور انسانی اخلاقی تقاضوں کے مغایر ہیں،کو فوری طور پر حل کریں،تاکہ ملک میں امن وامان قائم ہوں،فرقہ وارانہ اتحاد کا دور پھر سے قائم اور قومی یکجہتی کی فضا ایک بار پھر ساز گار ہو۔ ملازمین اور طلبا کے لیے سرزمین کشمیر پر واپسی  اسی سابقہ ماحول میں تمام تر کیفیات کے ساتھ ہو،ورنہ  بقول ڈاکٹر نواز دیوبندی   ؎
                جلتے گھروں کو دیکھنے والو،پھوس کا چھپر آپ کا ہے 
                آگے کے پیچھے تیز ہوا ہے، آگے مقدر آپ کا ہے 
                اس کے قتل پہ میں بھی  خوش تھا،اب  نمبر میرا آیا 
                میرے قتل پہ آپ بھی خوش ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے

 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

عدم مساوات کی بڑھتی خلیج کو کیسے پاٹاجائے؟

ماہ محرم الحرام فضیلت و اہمیت اور اس میں رونما ہونے والے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے