پھر شمع بجھ گئی

  محمد رائف کولا ندوی 

وہ جا چکا ہے اپنی عمر گزار کر قبر میں سو چکا ہے، اپنے اہلِ خانہ اور متعلقین کو غمگین کر کے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو چکا ہے، اور اس دنیا کو الوداع کہہ چکا ہے، ہاں پھر وہ نہیں آئے گا! پھر اس کے متعلقین اس کی خوش بیانی کو ترسیں گے، اس مسکراتے چہرے کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہوں گے، لیکن وہ جا چکا ہے قبر میں سو چکا ہے۔

 میں بات کر رہا ہوں میرے اس یار دل دار کی، جو ہر ایک کا یار دل دار تھا، میں بات کر رہا ہوں ایسے ملنسار شخص کی اس سے ملنے سے ہر ایک کے لبوں پر مسکراہٹ آتی تھی، لیکن اس کی جدائی نے دلوں کو شکستہ کر ڈالا  آنکھوں کو اشک بار کر ڈالا، اور وہ جا چکا ہے آرام کی نیند سو چکا ہے۔

ایک ایسا نوجوان جس میں بیک وقت کئی صفات جمع تھیں، کمالات جمع تھے، جن کی وجہ سے دہائیوں تک وہ یاد رہے گا، لوگ اس کو آسانی سے نہیں بھول سکتے، مگر وہ جا چکا ہے ۔

ایک متواضع شخص جس نے کبھی اپنی بڑائی بیان نہیں کی، اور مرتے دم تک اپنے بڑوں کے احترام کو ملحوظ رکھا۔
 اساتذہ کا احترام کرنے والا، ان کے ساتھ ادب کا لحاظ رکھنے والا، اپنے اساتذہ کی دعائیں لینے والا، اور ہر کام ان کے مشورے سے کرنے والا، اور ان کی محبتیں لینے والا جا چکا ہے ۔

وہ ایک شخص جس نے دیندار گھرانے میں آنکھیں کھولیں،  اور دینی گھرانے میں اس کی تربیت ہوئی، اور ایک ایسے والد کی گود میں تربیت ہوئی جس نے دین کی خدمت کا بیڑا اٹھایا تھا وہ جا چکا ہے۔

جس کے اندر دعوت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، زمانہ طالب علمی سے ہی دعوت کی محنت سے جڑا ہوا تھا، اور لوگوں کو بھی اس سے جوڑنے کی فکر کرتا رہتا تھا، اللہ کے راستے میں نکلنے کا جس کو شوق تھا اور وہ ایک داعی تھا جو جا چکا ہے ۔

اور جس کو غریبوں کی فکر بہت رہتی تھی۔

وہ گدا نواز بچھڑ گیا ،وہ عطا شعار چلا گیا
اک ایسا شخص جو نوجوانوں میں اور اپنے محلے میں شمع کی طرح روشنی بکھیر رہا تھا، لیکن آج وہ شمع بجھ گئی ۔

اولیاء اللہ کی مجالس میں پابندی سے جانے والا، اور ان سے مستفید ہونے والا، اور بزرگوں سے اصلاحی تعلق قائم رکھنے والا، اور مستقل ان کے رابطے میں رہنے والا جا چکا ہے۔

اک ایسا شخص جو میرا دوست تھا، اور بعض مسائل میں مجھ سے رائے لیتا تھا، اور جس کو میں اگر میرا رازدار کہوں تو غلط نہیں ہوگا وہ جا چکا ہے۔ 

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں 
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے

اے اسماعیل! آپ کی موت نے ہمیں غمگین کر دیا ہے، اور آپ کی یادیں ہمیں ستا رہی ہیں، آپ کی خوش اخلاقیاں نظر کے سامنے ہیں، آپ کی صاف گوئی ذہن میں نقش ہے، آپ کی وفائیں یاد آتی ہیں، اور وہ پیاری ادائیں یاد آتی ہیں، جس سے آپ لوگوں کے دلوں کو جیت لیتے تھے، لیکن اپنے مقدر میں کہاں کہ آپ کو دیکھیں، اور جی بھر کے دیکھیں، ان شاءاللہ جنت میں ملاقات ہوگی۔

   اے اسماعیل! آپ کی موت نے ہم کو پیغام دیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے، اور ہر ایک کو اپنے وقت مقررہ پر رب کے حضور پیش ہونا ہے، اور اس میں ذرا برابر شک کی گنجائش نہیں ہے، ہر کوئی کسی وقت بھی اپنے مالک حقیقی سے مل سکتا ہے، اور اس کو ہر وقت اپنے رب کا بلاوا آ سکتا ہے، لہذا ہر وقت تیاری کے ساتھ رہیں ۔۔۔

ایک ایسا خوش نصیب انسان جس کے دل میں ایمان تھا، اور اللہ کی محبت تھی، اور رسول سے عشق تھا، سنت سے پیار تھا، وہ جا چکا ہے، بارگاہ رب العزت میں پیش ہو چکا ہے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

 

10 مئی 2024

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے