وہ مسجد ہی تھی نہ کہ ۔۔۔۔۔۔

مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی

زمین میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ مساجد ہیں،مساجد سے مسلمانوں کا ایمانی،دینی،قلبی اور جذباتی تعلق ہوتا ہے،ایک فاسق وفاجر شخص کے نزدیک بھی مسجد قابل تعظیم ہوتی ہے،وہ مسجد کی بے حرمتی کو سب سے بڑا گناہ سمجھتا ہے،پریشان حال لوگوں کے لئے مساجد سکون کی جگہیں ہیں،جہاں رحمتیں برستی ہیں،فرشتوں جیسی نورانی مخلوق اسے اپنا مسکن اور ٹھکانہ بناتی ہیں،جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں وہاں سب سے پہلے مسجد کے قیام کی فکر کی جاتی ہے،اس ملک میں بھی اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مساجد کا قیام عمل میں آیا اور اس کا سلسلہ دراز ہوتا گیا،اور آج پورے ملک میں بے شمار چھوٹی بڑی ، خوبصورت اور عالیشان مساجد مسلمانوں کے وجود اور ان کے تشخص کی گواہ بنی ہوئی ہیں ۔ان مساجد میں سے کچھ مساجد بادشاہوں کی تعمیر کردہ بھی ہیں،ان میں سے بعض مساجد کے سلسلہ میں برادران وطن میں سے کچھ لوگوں نے تنازعہ کھڑا کردیا ہے،انھیں میں سے ایک مسجد بابری مسجد کے نام سے مشہور ہے،جس کے بارے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک طویل مدت تک شدید  اختلاف جاری رہا بالآخر اسے 1992میں شرپسند عناصر نے شہید کردیا تھا،ہندووں کا یہ دعویٰ تھا کہ اس مسجد کو مندر ٹور کر تعمیر کیاگیا ہے،جب کہ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ یہ اصل مسجد ہی ہے اسے کسی مندر کو توڑ کر تعمیر نہیں کیا گیا ہے،یہ تنازعہ ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں سے گزر کر سپریم کورٹ پہنچا اور مسلمانوں نے حقائق اورملک کی سب سے بڑی عدالت کے  انصاف اورقانون پر اعتمادوبھروسہ کرتے ہوئے  یہ اعلان کیا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا فیصلہ منظور ہوگا،لہذا سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلہ میں یہ تسلیم کیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر تعمیر نہیں کی گئی ہے بلکہ وہ  اصلا مسجد ہی تھی،نیز بابری مسجد کی شہادت ایک مجرمانہ عمل ہے،اس کے باوجود اکثریت کی استھا کو سامنے رکھتے ہوئے غیر قانونی طور پر مسجد رام مندر کی تعمیر کے لئے ہندوؤں کے حوالے کردی،مسلمانوں نے ایفاء عہد کرتے ہوئے صبر وتحمل سے کام لیا۔اور خاموش ہوگئے۔۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بابری مسجد کی غاصبانہ جگہ پر رام مندر کی تکمیل اور اس کا افتتاح 22/جنوری 2024/کو بڑی دھوم دھام سے منایا گیا،یہاں تک کہ  موجودہ سرکار نے  لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں  اس ظالمانہ  کردار کو اپنی فتح اور کامیابی قرار دیا ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود اس عمل کو انصاف اور قانون کے خلاف سمجھنے سے گریز نہیں کرتے۔اس پر مستزاد لوک سبھا کے نائب اسپیکر جناب راجیندر اگروال آج بھی مندر پر بابری مسجد والا وہی موقف دوہراتے ہیں جسے ہندو فریق سالہاسال کی محنت اور کوشش کے باوجود عدالت کے سامنے ثابت نہ کرسکا اور عدالت کو اپنے نظریہ پر قائل نہ کرسکا،اس عظیم منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس قدر تجاہل اور سپریم کورٹ کے فیصلہ سے لاعلمی ناقابل فہم ہے – 

جب قانون ودستور کا واقف کار آدمی عدالت کے فیصلے کے باوجود اپنے قدیم موقف پر غور کرنے کو تیار نہیں تو عام لوگوں کو اس حقیقت کا کیسے علم ہوسکتا ہے کہ بابری مسجد مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی، اس طرح عام ہندؤں کو یہی احساس ہوگا بلکہ یقین ہوگا کہ عدالت نے  یہ تسلیم کیا تھا کہ مندر پر بابری مسجد بنائی گئی ہے،اس پر مستزاد خود مسلمان بھی اس جھوٹ کو سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
 سچائی یہ ہے کہ وہ مسجد ہے ۔یہ ایسی حقیقت ہے کہ قیامت تک اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا،نیز سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس حقیقت کو مزید تقویت پہنچائی ہے،اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی قوم کو اور خاص کر نئی نسل کو اس حقیقت سے واقف کرائیں،سپریم کورٹ کے فیصلے کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے نی نسل تک عام کرنے کی کوشش کی جائے،اسکولس اور کالجسس میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کے سامنے بھی اس سچائی کو بیان کیا جائے ،اپنے گھروں میں محلوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نقل چسپاں کی جائے تاکہ صحیح کی اشاعت ہو اور غلط کے متعلق لوگ آگاہ ہوجائیں –

«
»

رمضان سے ہم نے کیا حاصل کیا؟

خدا کی قدرت ،جو سب سے طاقت و ر تھا وہ سب سے کمزور بن گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے