کاٹھیاواڑ کے ساحل پر(3)

سفرنامۂ گجرات: مشاہدات وتاثرات (3)

محمد سمعان خلیفہ ندوی  استاد جامعہ اسلامیہ، بھٹکل

ویراول کاٹھیاواڑ کا ایک حصہ ہے، اس کے اطراف میں دیو، جوناگڑھ، راجکوٹ، مانگرول اور کوڈی نار وغیرہ واقع ہیں۔ کاٹھیاواڑ اہل علم کے لیے شاید نامانوس نہ ہو کیوں کہ یہاں کئی ایک اہل علم وفضل گزرے ہیں، خود علامہ عبد العزیز میمنی کا نام مجھ جیسے طالب علم کے لیے بہت زیادہ دل چسپی کا ہے، کیوں کہ پڑھنے کے زمانے میں مولانا کی شخصیت سے متاثر ہوکر میں نے عربی کا مقالہ لکھا تھا جو ایک ایسے طالب علم کے لیے بڑے فخر کا موقع تھا جسے پچھتر صفحات پر مشتمل طویل عربی تحریر لکھنے کا یہ سب سے پہلا موقع میسر آیا تھا، اساتذہ نے بھی اس کی ہمت بڑھائی، بالآخر جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے پچاس سالہ جشن تعلیمی کے موقع پر زیور طبع سے آراستہ ہونا اس کا مقدر بنا۔

سامعین کے لیے ویراول کا نام شاید نامانوس ہو مگر اسی شہر میں واقع سومنات کے مندر کو شاید ہی کوئی تاریخ کا طالب علم بھول پائے، پہلے سومنات سلطنت جوناگڑھ کا مرکزی شہر ہوا کرتا تھا مگر 48 کے بعد اسے ویراول میں ضم کردیا گیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اسے تباہی کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ بالآخر آزادی ہند کے بعد سردار ولبھ بھائی پٹیل کی کرم فرمائی سے اس کی موجودہ تعمیر کا قیام عمل میں آیا۔

محمود غزنوی اور سومنات کے حوالے سے پتہ نہیں کتنی تاریخی داستانیں وجود میں آئیں اور برادران وطن کے ذہن میں اس حوالے سے معلوم نہیں کیا کچھ گردش کرتا رہتا ہو، مگر یہاں کے باشندوں کے دل ابھی بھی رواداری اور پر امن بقائے باہم کے جذبات سے لبریز ہیں، جس کا فائدہ یقیناً پیام انسانیت کے حوالے سے اٹھایا جانا چاہیے، اس موضوع پر یہاں کے احباب سے تبادلہ خیال بھی ہوا اور امید ہے آئندہ دنوں میں اس سلسلے میں یقینا مثبت پیش رفت بھی ہوگی۔

چوں کہ مسلسل سفر کی وجہ سے ہم بھی تھکے ہوئے تھے اور ہمارے احباب بھی، اس لیے گیر سومنات کے جنگل میں واقع ایک فارم ہاؤس میں دن گزارنے کا مشورہ ہوا اور ناشتے سے فارغ ہوکر وہاں پہنچے، دوپہر تک پیراکی اور کھانے سے فارغ ہوکر مغرب سے قبل ویراول واپسی ہوئی۔

یہاں مغرب بعد ایک اہم پروگرام نعتیہ محفل کا تھا، جس میں خوش نوایان کہکشاں کو نعتیں اور مناجاتیں پیش کرنی تھیں۔ اس لیے مغرب کے فوراً بعد“مسجد اقصیٰ”کا رخ کیا گیا۔ یہاں پہنچے تو محفل شباب پر تھی، دانش میاں“الٰہی میں حق دار جنت نہیں”پڑھتے ہوئے دلوں کو یاد خدا کی مشعل سے گرما رہے تھے، پھر اس کے بعد انس، نصیر، عمیر، اذعان، نے طائرانِ آسمانِ محبت اور مسافرانِ راہِ الفت کو جو ایڑ لگائی اور سمندِ شوق کو جو مہمیز کیا بالآخر زفیف خوش نوا نے اپنے سوزِ دروں سے سازِ محبت پر وہ نغمہ چھیڑا کہ بس لذتِ عشق دو آتشہ ہوکر رہ گئی۔ کیا کہنے! چشم بد دور! اللہ سلامت رکھے ان جوانوں کو! ایک عجیب روشنی فضا پر چھائی تھی، سکینت اور طمانینت کا شامیانہ سجا ہوا تھا! ایک روح پرور اور ایمان افروز منظر! کہکشاں کا ہر ستارہ نعت نبی اور حمد ومناجات میں رطب اللسان اور دوسری طرف تڑپتے دل اور بہتی آنکھیں، ہر آنکھ میں اشکوں کا سیلاب امڈتا ہوا، ہر زبان پر درودوں کا نغمہ جاری۔ بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں۔ شاید ان آنسوؤں کو کچھ باریابی ملے اور بارگاہِ عاشقی میں حسنِ قبول پاجائیں۔ گویا فکر کے پنچھی اور عشق کے طائر کے سامنے ہزاروں میلوں کی مسافت سمیٹ دی گئی ہو اور حریمِ محبت کے دامن میں پہنچ کر بے چین دل کو تسکین اور مضطرب روح کو قرار مل رہا ہو۔ وہ شام ویراول کی ایک یادگار شام تھی، بلکہ ہم لوگوں کے لیے بھی شاید بڑی بابرکت رات تھی، خدا اس کو فالِ نیک بنائے، سعادتوں سے دامنِ مراد بھر جائے اور زندگیوں میں نیک اور صالح انقلاب کا یہ پیش خیمہ بن جائے، ورنہ اس سیہ کار کے لیے تو بہ جز مغفرت الٰہی کے کوئی اور سہارا اور آسرا ہی نہیں، خدائے ستار کی ستر پوشی نہ ہو تو کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہ رہے۔

یہ شام اتنی یادگار تھی کہ اس کی خوش گوار یاد بھلائے نہ بھولے، خود کہکشاں اور کہکشاں کے حوالے سے نعت کی نسبت پر اس حقیر ذرے کو فخر حاصل ہوا۔ اب تک نعت کے حوالے سے اتنی بابرکت اور روحانی محفل ان گنہ گار آنکھوں نے شاید ہی کبھی دیکھی ہو، بلکہ مالک الملک سے التجا ہے کہ مجلس کے حاضرین کی آنکھوں میں اتر آنے والے اشک ندامت کے چند قطروں کے واسطے سے ہم سب کی مغفرت کا سامان بہم ہوجائے۔

دماغ ودل میں ایک طوفان برپا تھا، الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، عمر بھر کی نالائقیاں اور سیہ کاریاں دل پر بوجھ بن کر دماغ کو ماؤف کررہی تھیں، ایسے میں پتہ نہیں جنوں میں کیا کچھ باتیں زبان سے ادا ہوئیں، بس خدا لاج رکھے۔ ادارہ ادب اطفال کے حوالے سے درخواست کی گئی کہ اس کی سرگرمیوں کا تعارف کیا جائے تو الحمد للّٰہ رسالہ بچوں کا پھول، کہکشاں، کاروان اطفال، نشریات، شعبہ کتب خانہ وغیرہ مختلف سرگرمیوں پر روشنی ڈال کر اس زمانے میں اس کام کی اہمیت سامعین کے گوش گزار کی گئی، پھر دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔ حاضرین اور خود شہر کے ذمے داروں نے اس حوالے سے فکر مندی کا اظہار کیا اور ہر ممکن کام کی یقین دہانی کی۔ آئندہ دنوں میں امید ہے ان شاء اللہ ادارے کی سرگرمیاں یہاں شروع ہوں گی۔

(جاری) (۱۵ اکتوبر)

 

کاٹھیاواڑ کے ساحل پر  2

کاٹھیاواڑ کے ساحل پر1

«
»

موت کے بعد آنسو

تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے