مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

عید کے بعد نماز سے غفلت محدود تصور دین کا نتیجہ ہے
عبدالغفار صدیقی

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی مسجدوں کی رونق میں اضافہ ہوجاتا ہے۔بڑی مساجد بھی تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگتی ہیں۔اگرچہ اس رونق میں خشوع و خضوع کم شور شرابہ اور ہاؤ ہلڑ زیادہ ہوتا ہے۔ایک بڑی تعداد اس طرح مسجدوں میں آتی ہے جیسے کہ خدا پر کوئی احسان کررہی ہو۔اس کے کسی انداز سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ شہنشاہ کائنات کے دربار میں غلامانہ آئی ہے۔مسجدوں کے باہر خوانچہ والوں کی آوازیں،وضو خانوں پر ہنسی مذاق کا رویہ،صفوں کے درمیان نابالغوں کی دھکامکی،جماعت کھڑی ہونے تک زیادہ تر افراد کی سرگوشیاں اسی کی غماز ہیں۔بس چند گنے چنے لوگ ہی مصروف ذکر و اذکاردکھائی دیتے ہیں۔جماعت سے فراغت کے بعد جیسے ہی دعا ختم ہوئی اندر والے نمازیوں کا باہر کی طرف کوچ کرنے کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ باہر کوئی شیرینی تقسیم ہورہی ہے یا غلطی سے اندر والے حصے میں آگئے تھے۔نمازیوں کے دوش پر سوار ہوکر نکلتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔اسی طرح تراویح کی رسمی نماز میں ہر کسی کی غیر سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔امام صاحب اس طرح قرآت فرماتے ہیں کہ جیسے انھیں کہیں جانا ہے۔اگر وہ ذرا توقف فرمائیں تو مقتدیوں کا پریشر کہ ذرا جلدی پڑھائیں،جیسے ہر شخص کسی سفر پر جانے والا ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ رمضان کی رونقیں ہیں۔یہ اللہ کی شان کا اظہار ہے اوریہ مقدس مہینے کی برکات ہیں۔میری نظر میں یہ سب کچھ اللہ،اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ مذاق ہے۔جس کی سزا دنیا میں ذلت و رسوائی کی شکل میں مل رہی ہے اور آخرت میں بھی شدید پکڑ کا خطرہ ہے۔
خدا خدا کرکے جیسے تیسے روزے مکمل ہوتے ہیں۔روزہ رکھنے والوں کی تعداد بھی روز بروز گھٹ رہی ہے۔قدریں بھی بدل رہی ہیں۔خبر ہے کہ پرانے حیدرآباد میں جہاں ماہ رمضان میں دن کے وقت ہوٹلوں اور ریستورانوں پر پردے ہوا کرتے تھے اس بار وہ بھی بے حجاب ہوگئے ہیں۔چوراہوں پرحلیم بریانی کے ٹھیلے عام دنوں کی طرح ہی لگے ہوتے ہیں۔بازاروں میں لگتا ہی نہیں کہ رمضان کا کوئی ا ثر ہے۔آج سے بیس پچیس سال پہلے شاید ہی دن کے وقت کوئی ہوٹل کھلا رہتا ہو۔اگر کسی نے کھولا بھی ہے تو رمضان کے احترام میں پردہ لٹکا رکھا ہے۔لیکن اب وہ احترام و شرم و حیا بھی جاتی رہی۔
یوں تو نمازیوں کی تعداد آخری عشرے میں ہی کم ہونے لگتی ہے۔لیکن دوگانہ کے بعد تو محسوس ہوتا ہے کہ نماز کی تعطیل ہوگئی ہے۔وہی لوگ جو رمضان میں اذان سنتے ہی نماز کے لیے نکلتے تھے اب اذان سن کر ان کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔جیسے رمضان سے پہلے تھے ویسے ہی اب ہوگئے۔یعنی رمضان کا کوئی اثر ان پر نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے انھوں نے روزے نہیں رکھے بلکہ فاقہ کیا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ میں دین کا ناقص ترین تصور رواج پاگیا ہے۔
امت کو اس کے علماء و واعظین نے ماہ مبارک میں نماز و روزے کا جو ثواب بتایا ہے۔امت نے اس کو کیلکولیٹ کرلیا ہے اور وہ آنے والے رمضان تک کے لیے مطمئن ہوگئی ہے۔جب رمضان میں ایک وقت کی نماز کا ثواب کم سے کم ستر گنا ملتا ہے تو پھر باقی دنوں میں نماز کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی۔مثال کے طور پر کسی شخص نے رمضان کے انتیس دن (اس بار 29ہی روزے ہوئے ہیں)فجر کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اس نے (29*70=2030)تقریباً پانچ سال سے زائد کا کوٹا مکمل کرلیا۔ستر گنا تو کم سے کم ہے جب کہ ثواب کی مقدار سات سو گنا تک ہے تو بندہ اپنے اللہ سے حسن ظن کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ کی امید رکھتا ہے۔حالاں کہ اسے یہ نہیں معلوم کہ اس حساب و کتاب سے پڑھی گئی نمازیں دربار الٰہی میں مقبول ہی نہیں ہوئی ہیں۔وہ رد کردی گئی ہیں۔بہت سے لوگ محض اس وجہ سے کہ لوگ کیا کہیں گے نماز پڑھتے ہیں۔ریاکارنہ نمازوں کا بھی کوئی اجر خدا کے یہاں نہیں ہے۔میرے ایک عزیز نے سوال کیا کہ ”میں مسجد میں جماعت سے تراویح پڑھوں یا نہ پڑھوں“۔ان کی عمر ستر سال کے آس پاس ہے۔میں نے کہا آپ گھرپر ہی حسب سہولت پڑھ لیجیے گا۔وہ کہنے لگے کہ”لوگ کیا کہیں گے؟“۔اس پر میں نے کہا اگر لوگوں کا خوف ہے تو بالکل مت پڑھیے۔پھر نماز پڑھنے والوں کی نمازیں بھی ماشاء اللہ ہیں۔بس رکعات کی تعداد پوری کرنے میں لگے ہیں۔معیار پر کوئی توجہ نہیں۔جماعت سے نماز پڑھتے وقت امام صاحب ایک سجدہ سے سر اٹھانے نہیں دیتے کہ دوسراسجدہ کرادیتے ہیں۔انھیں اس بات کا بھی احساس نہیں کہ ان کے پیچھے کچھ بوڑھے اور کمزور بھی ہیں۔تنہا پڑھتے وقت واللہ اعلم لوگ کس رفتار سے پڑھتے ہیں کہ میں ایک رکعت پڑھتا ہوں تو برابر والا دو رکعت مکمل کرلیتا ہے۔ایسی نمازوں پر ہمیں یہ غرور و گھمنڈ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے گا۔جب کہ یہ نمازیں منھ پر ماردی جائیں گی۔
دین کے ناقص تصور کی اشاعت نے برصغیر ہند کے نوے فیصد مسلمانوں کی عبادتوں کو بے اثر کردیا ہے۔وہ اگر کوئی نیک عمل کرتے بھی ہیں تو اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکلتے۔یہ سارا قصور کم علم واعظین کا ہے۔دین کے نام پر من گھڑنت قصے کہانیاں سنا کر عوام کا بے وقوف بنادیا جاتا ہے۔جو چیزیں دین میں مستحب کے درجے میں ہیں اور اختیاری ہیں انہیں دین کا لازمی اور ضروری جز قرار دے دیا گیا ہے۔شب برأت کو لیلۃ القدر کا درجہ دے کر حقیقی شب قدر کی اہمیت اس قدر کم کردی گئی ہے کہ عام مسلمانوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ آج شب قدر ہے۔جب کہ یہی لوگ پندرہوں شعبان کو مسجدوں اور قبرستانوں کو خوب سجاتے ہیں۔ائمہ مساجد تک یہ اعلان نہیں کرتے کہ آج شب قدر ہے۔الا ماشاء اللہ۔
اسی ناقص تصور دین کے سبب نہ ہمارے عقائددرست ہیں نہ اعمال۔ہم نے عقیدہ توحید تک کو چوں چوں کا مربہ بنادیا ہے۔قرآن کہتا ہے۔”کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکتا ہے۔“ اور ہم نے سفارشیوں کی پوری ٹیم بنا رکھی ہے۔خدا کی صفت رزاقیت پر سب سے کم زور ایمان ہمارا ہے اسی لیے ہم چند سکوں کے عوض ضمیر کا سودا کردیتے ہیں۔اللہ کی حاکمیت کو امور دنیا سے ہم نے خارج کردیا ہے۔اکثر اوقات جو شخص مسجد میں بڑا اللہ والا دکھائی دیتا ہے وہی بازار میں گرہ کاٹتا ہے۔اسی رمضان کا واقعہ ہے کہ ایک مقام پر موبائل گُم ہوجانے کو لے کر بچوں بچوں میں کچھ جھگڑا ہوگیا۔تو دیکھا کہ پانچ وقت کے نمازی اور صوفی کا لاحقہ  لگانے والے تک وہ مغلظات بک رہے تھے کہ شیطان نے بھی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔عقیدہ رسالت کے ساتھ ایسی کہانیاں جوڑی گئیں کہ رسول ؐکے مقام کو آسمان تک پہنچانے کے چکر میں انسانیت کے مقام تک سے گرادیا گیا۔بقول عامر عثمانی مرحوم:
نہ تھے فرشتے بھی جس پہ قادر کیا وہ کار عظیم ہم نے 
احد کو احمد سے ربط دے کر اڑادیا صرف میم ہم نے 

اسی ناقص تصور دین کی بدولت قرآن کو سمجھ کر پڑھنا گمراہی خیال کرلیا گیا ہے۔بزرگان دین کے نام پر نیا دین گھڑلیا گیا ہے۔سماع موتیٰ،بارہ گاہ ایزدی میں ان کے دخل کو اس شدت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ ایک انبوہ کثیر ان کی قبروں پر سجدہ ریز ہے۔غوث،قطب،ابدال کے نئے مناصب کا اختراع کیا گیا ہے۔قرآن کی انسانیت پر مبنی تعلیمات پر عصبیت کا ایسارنگ چڑھادیا گیا ہے کہ غیر مسلم قرآن کو دہشت گردی کی کتاب سمجھ بیٹھے ہیں۔
عید کے بعد مسجدیں خالی ہوجانے کا شکوہ کرنے والوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سیرت پر مبنی اصل دین کا خود بھی مطالعہ کریں اور دوسروں تک بھی پہنچائیں۔جب نماز جیسی اہم عبادت کا یہ حال ہے تو باقی ارکان دین کی صورت حال کا آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ مسلم معاشرہ بھی مولوی نما پنڈتوں کے حصار میں قید ہے جو سمجھتا ہے کہ ان کے بغیر خدا تک رسائی ممکن نہیں۔خدا راانھیں اس قید سے آزاد کیجیے اور خالص اللہ کی بندگی میں دے دیجیے۔
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے

آہ!ملت نے ایک عظیم "رہبر”” کھودیا”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے