کیا بھارتی مسلمان اس رمضان میں خدا سے نئی تقدیر لکھوائیں گے؟

عبادت کرتے وقت ان کے مقاصد پر نظر رکھنا ضروری ہے

   عبدالغفار صدیقی

جب سے دنیا بنی ہے اور جب سے انسان نے کلینڈر کا استعمال کرنا شروع کیا ہے شاید تب سے ہی رمضان کا مہینہ ہو،اس لیے کہ روزے ساری شریعتوں میں فرض رہے ہیں۔ یہ بات تو وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بعثتِ نبوی کے بعد سن دو ہجری میں رمضان کے روزے فرض کیے گئے تھے۔ اس دن سے آج تک شریعت محمدی کی پیروی کرنے والے اس ماہ مبارک کے روزے رکھتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ امتداد زمانہ کے ساتھ روزے داروں کی تعداد کم اور فاقہ کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیاہے۔ گزشتہ صدی میں تو مسلمان ہر شعبے میں زوال کا شکار ہوگئے۔ان کی خلافت کیا ختم ہوئی سمجھو وہی ختم ہوگئے۔ان کی تہذیب بدل گئی۔ان کے عقائد میں شرک و کفر کی آمیزش ہوگئی،ان کے اخلاق میں ضمیر فروشی اور نفاق کا بول بالا ہوگیا۔ان کی عبادات تک میں ہاؤ ہو کے ہنگامے شامل ہوگئے۔جو دین عقل و شعور کو اپیل کرنے آیا تھا اسی دین میں عقل سے سوچنا اور دماغ سے غور و فکر کرنا گناہ تصور کیاجانے لگا۔جو دین مختلف پرستیوں کے بجائے خدائے واحد کی پرستش کی تعلیم دینے آیا تھا وہاں خود ان کے بعض علماء نے الٰہ کی شکل اختیار کرلی۔زمین پر اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کے بجائے ملا کی شریعت نافذ ہوگئی۔سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسے ایسے مناظر سامنے آتے ہیں کہ اسلام کی سچائی،اس کی حقانیت اور اس کے من جانب اللہ ہونے پر تذبذب ہونے لگتا ہے۔کہیں کسی پیر و مرشد کی بارگاہ میں سجدے ہورہے ہیں،ان کے ہاتھ چومے جارہے ہیں،قوالی کے مصرعوں پر بزرگان دین ڈانس کررہے ہیں۔کہیں کوئی مولوی صاحب چینخ چینخ کر گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں۔اپنے مسلک کے مخالفین کا مذاق اڑا رہے ہیں۔دینی خطابات میں استھزاء کا انداز اپنایا جارہا ہے۔جھاڑ پھونک کا دربار لگایا جارہا ہے۔کہیں ایمان و یقین کی بات کہہ کر قصے کہانیاں سنائی جارہی ہیں۔مسلم معاشرے کی ایسی عجیب صورت حال دیکھ کر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے۔
دراصل یہ صورت حال اس لیے ہے کہ ہم اپنا مقصد زندگی بھول گئے،دنیا میں اپنا مقام فراموش کربیٹھے،اپنی عبادتوں کی غرض و غایت اور اس کے اثرات و نتائج پر غور کرنا چھوڑ دیا،مقصد کے بجائے فارمیٹ زیادہ اہم ہوگیا،ہم نے یہ سکھایا کہ وضو میں کتنے فرض اور کتنی سنتیں لیکن یہ نہ بتا سکے کہ جب دل میں اپنے ہی بھائیوں کے خلاف نفرتوں کے لاوے ابل رہے ہوں تو وضو کرنے سے طہارت حاصل نہیں ہوسکتی۔ہم نے اس پر توجہ دی کہ نماز میں کس طرح کھڑا ہوا جائے،ہاتھ کہاں باندھے جائیں،ہماری نگاہ کہاں پر ہو،لیکن بقول علامہ اقبال ؒ یہ نہیں بتایا:۔”ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں“۔یہی حال رمضان کا ہے۔رمضان ہر سال آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔معاف کیجیے گامجھے تو کوئی تبدیلی نظر آتی۔
رمضان جو مواسات و غم خواری کا مہینہ ہے۔جس میں روزہ رکھنے کے بعد قلب نرم ہوجاتا ہے۔بھوک پیاس کا احساس غریبوں اور ناداروں کے دکھ درد کا احساس کراتا ہے،لیکن مزے مزے کے پکوانوں سے افطار کے ساتھ ہی اس احساس کا دم گھٹ جاتا ہے۔جو رمضان ہماری لذت کام و دہن کو حدود میں رکھنے کے لیے آتاہے اسی رمضان کا بیشتر وقت لذت کام و دہن کی فرمائشیں پوری کرنے میں گزرجاتا ہے۔رمضان کو صبر کا مہینہ کہا گیا تھا،مگر غروب آفتاب کے ساتھ صبر کا باندھ ٹوٹ جاتا ہے۔جس رمضان کو تربیت،تزکیہ اور حصول تقویٰ کے لیے مقرر کیا گیا تھا اس رمضان میں یہ چیزیں کسی مارکیٹ میں نظر تک نہیں آتیں۔ہماری جیسی حالت رمضان سے پہلے رہتی ہے،تقریباً وہی کیفیت اور حالت بعد میں بھی رہتی ہے۔نہ ہمارے دل نرم ہوتے کہ اپنے اعزہ کا معاف کردیں۔نہ ہماری معیشت میں کوئی ایمانداری کی رمق دکھائی دیتی ہے۔نہ ہمارے قائدین میں اخلاص کے سوتے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔نہ انتشارکم ہوتا ہے،نہ مسلکوں کی دوریاں مٹتی ہیں۔واللہ یہ کیسا مہینہ ہے جو مال داروں کو صرف اچھے اچھے کھانوں،عید کے لیے قیمتی کپڑوں کی خریداری کے لیے اور ناداروں کو زیادہ سے زیادہ صدقات وصولی کے لیے آتاہے۔فقراء کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوجاتا ہے۔سالہاسال سے رمضان میں زکاۃ نکالنے والی امت میں بھیک مانگنے والے کم ہونے کے بجائے کیوں بڑھ رہے ہیں؟
رمضان قرآن کے نزول کا مہینہ ہے۔اس لیے رمضان کے آغاز پر قرآن الماریوں سے نکال کر صاف کیے جاتے ہیں،ان کے جزدان ٹھیک کیے جاتے ہیں۔گھروں میں تلاوت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔نمازوں سے قبل مساجد میں بھی بعض حضرات تلاوت میں مشغول رہتے ہیں۔چھوٹے بچے بچیاں بھی جو قرآن پڑھ سکتے ہیں،اس مہینے میں تلاوت کا شرف حاصل کرتے ہیں۔حفاظ کرام دور نکالتے ہیں۔یہ سب کچھ بہت اچھا ہے۔کار خیر ہے۔باعث برکت و ثواب ہے۔لیکن  بیشتر مقامات پرتراویح میں قرآن کا جو مذاق اڑایا جاتا ہے اس کا عذاب سارے ثواب پر بھاری پڑجاتا ہے۔کہیں چھ دن میں قرآن کی تکمیل ہورہی ہے،کہیں دسویں دن قرآن ختم کیا جارہا ہے۔قراء اور حفاظ میں تیز رفتاری کا مقابلہ ہوتا ہے۔بیس رکعات تراویح 60 سے 70منٹ میں پڑھ لی جاتی ہیں۔یعنی تین منٹ میں ایک رکعت،اس میں قیام بھی ہے،رکوع اور سجدے بھی،اس میں سورہ فاتحہ بھی ہے اور قرآن کا حصہ بھی،وہی سورہ فاتحہ جس کی ہر آیت کو الگ الگ پڑھنے کا حکم ہے۔ایک سانس میں پڑھ دی جاتی ہے۔قرآن کی تلاوت میں سوائے یعلمون تعلمون کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا،رکوع اور سجدوں میں تین بارکی بات تو چھوڑئے ایک بار بھی سکون سے سبحان اللہ نہیں کہا جاسکتا،آخر نماز میں چوری والی حدیث صرف پڑھنے کے لیے ہے،عمل کے لیے نہیں ہے؟نماز کی اسی بدتر ین کیفیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری نمازیں ہمارے منھ پر ماردیتا ہے اور اس کی یہ مار ہمارے چہروں کو بگاڑ دیتی ہے۔تراویح میں قرآن کا یہ برا حال کوئی جاہل مسلمان یا مزدور پیشہ مسلمان نہیں کرتا،بلکہ یہ فریضہ حفاظ کرام،جن میں بعض عالم بھی ہوتے ہیں انجام دیتے ہیں۔
یہ حضرات قرآن کا صرف مذاق ہی نہیں اڑاتے بلکہ اس مہینے میں نعوذ باللہ کچھ لوگ قرآن کی تجارت بھی کرتے ہیں۔کتنے ہی حفاظ اس مہینے میں ایسے شہروں اور ایسی مساجد کا رخ کرتے ہیں جہاں انھیں قیمتی نذرانے ملتے ہیں۔غریب مساجد کو نہ قاری میسر آتے ہیں نہ سامع،ختم قرآن پر بعض جگہ نذرانوں کے کم رہ جانے پر ناراضگیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔کچھ ناعاقبت اندیش ایک سے زائد مقامات پر تراویح پڑھاتے ہیں۔یعنی ایک قرآن کسی سیٹھ کی سرپرستی میں چھ دن میں ختم کرتے ہیں،پھر کسی دوسری جگہ موقع تلاش کرلیتے ہیں۔
اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہے،ملک میں اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں انھیں جو زخم مل رہے ہیں،ان کا حال جس خوفناک مستقبل کے اشارے دے رہا ہے،اس کا تقاضا ہے کہ ہم  اس مہینے میں اپنی عبادات اوراللہ سے اپنے تعلق پر از سر نو غور کریں۔یہ مہینہ احتساب اور جائزے کا مہینہ ہے،اس لیے ہم سب اس بات کا جائزہ لیں کہ پانی کہاں کہاں مر رہا ہے،سب سے پہلے علماء،حفاظ اور ائمہ مساجد کو غور کرنا چاہیے۔اس لیے کہ دینی امور میں وہی پیشوا اور آئڈیل ہیں۔انھیں دینی شعائر کا مذاق بناتے ہوئے زیادہ ڈرنا چاہیے کیوں کہ علماء کی یہی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ سے زیادہ خشیت رکھنے والے ہوتے ہیں۔دنیا کی چند روزہ زندگی اورتھوڑے سے عیش و آرام کی خاطر دین مصطفےٰ فروخت نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے سیاسی قائدین کو بھی اس مہینے میں اپنی سیاسی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔آپ یہ کہہ کر نہیں چھوٹ جائیں گے کہ سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آپ خود کو اگرمسلمان سمجھتے ہیں تو یہ بھی جان لیجیے کہ ایک مسلمان کا ہر کام اس کے عقیدے اور دین کے مطابق ہونا چاہیے۔ہماری سیاسی تدابیر کسے فائدہ پہنچا رہی ہیں۔کس کا نقصان کررہی ہیں؟ایوان اقتدار میں ہماری نمائندگی کیوں کم ہورہی ہے؟ہمارا وزن کیوں گر رہا ہے؟ہماری آواز کیوں صدا بہ صحرا ثابت ہورہی ہے؟ یہ وہ امور ہیں جن پر ہماری سیاسی قیادت کو غور وفکر کرنا ہے۔اسی کے ساتھ ہمارے تاجروں،ہمارے اساتذہ،ہمارے قلم کاروں اور دانشوروں کو اپنے ذریعہ کیے گئے عمل کے اثرات کا جائزہ لینا چاہئے۔
یہ مبارک مہینہ انسانیت کے لیے ایک بیش بہا نعمت خداوندی ہے۔یہ مہینہ خدا سے اپنی نئی تقدیر لکھوانے کا مہینہ ہے۔ اگر اس مہینے میں بھی ہم اپنے فکر و عمل میں کوئی انقلاب نہ لاسکے تو پھر دعائے جبریل پر رسول محترم کی آمین کے عوض ہونے والے عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔جس میں حضرت جبریل ؑنے دعا کی تھی:۔”تباہ ہوجائے وہ شخص جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کراسکے۔“۔مغفرت اس کے سوا کیا ہے کہ ہمارے دن بدلیں،ہماری ذلت و رسوائی ختم ہو،ہمارے شعائر محفوظ رہیں،ہمارا زوال رک جائے اور ہم عروج کی جانب گامزن ہوں۔
 

«
»

انساں کے قول و فعل میں بڑھتا ہوا تضاد!

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی :تازہ سروے کے پریشان کن نتائج

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے