وہ اپنے ایوارڈ واپس کرکے ایک ایسے اقتدار کے خلاف احتجاج درج کرانا چاہتے ہیں، جو معاشرہ میں بڑھتی عدم برداشت کے خلاف اور شہری حقوق پر ہورہے حملوں کو روکنے میں ذرا بھی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے، یہی نہیں اپنی خاموشی سے وہ ایسی کوششوں کی ہمت افزائی بھی کررہی ہے، جو ملک کے سیکولر کریکٹر کو تباہ کرکے رکھ دینگی، کہانی کار ادے پرکاش کے بعد ایوارڈ واپس کرنے والوں کی فہرست میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اب تک چالیس سے زیادہ ادیب وشاعر اپنے ضمیر کی آواز پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے ساتھ گیان پیٹھ ایوارڈ لوٹا چکے ہیں اس احتجاج کا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ سلسلہ کسی منصوبہ بند حکمت عملی کا نتیجہ نہیں ہے، نہ اس بارے میں دانشوروں کی میٹنگ ہوئی ، نہ اتفاق رائے کا کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا گیا ، یہ بھی ایک سچائی ہے کہ صدائے احتجاج بلند کرنے والے تمام مصنفین کسی ایک نظریہ کے علمبردار نہیں بلکہ ان کا تعلق مختلف زبانوں ، معاشروں ، علاقوں اور ریاستوں سے ہے اور ان میں ایوارڈ لوٹانے والے نیز اکادمیوں کے عہدے سے استعفے دینے والے شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج ادب کی اس شکل وصورت کے تحفظ سے وابستہ ہے جو آزادی کے بعد اسے حاصل ہوئی تھی اور جس کے بغیر ادب ، ادب نہیں رہتا، ان کا یہ بھی موقف ہے کہ آج کی صورت حال میں واقعات کو انفرادی نقطہ نظر سے دیکھنے یا پردیش سرکاروں کو اس کاذمہ دار قرار دینے کے بجائے ضرورت اس کی ہے کہ مرکزی حکومت نوشتہ دیوار پڑھے اور اپنی ذمہ داری قبول کرے کیونکہ اس کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے جارح عناصر کو فرقہ پرستی کا یہ کھیل کھیلنے کا حوصلہ ملا ہے۔
اس سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ احتجاج کرنے والے ادیبوں وشاعروں کے دلائل پر توجہ دیکر اس کا علاج کرنے کے بجائے اقتدار پر فائز عناصر سیاسی موشگافیوں میں مصروف ہیں کوئی ادیبوں کے سیاسی نظریہ کی تحقیق پر زور دے رہا ہے تو کوئی ان کے ضمیر کی آواز کو سیاسی رنگ میں رنگ کر پیش کررہا ہے،یہ بحث بھی چھیڑدی گئی ہے کہ اگر ناراضگی حکومت سے ہے تو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کیوں واپس کئے جارہے ہیں؟ ایسے عناصر اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں ساہتیہ اکادمی آج کہنے کو خود مختار ادارہ ہے لیکن اس پر حاوی سیاسی اثرات کو کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کلبرگی، پانسرے جیسے ادیبوں کے قتل پر بھی اکادمی کے ذمہ دار خاموش کیوں رہے، اپنی برادری کے جانے مانے قلم کاروں کے قتل پر انہوں نے صدائے احتجاج بلند کیوں نہیں کی جبکہ اس بارے میں اکادمی پر باقاعدہ زور بھی ڈالا گیا تھا ، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اکادمی کے عہدیدار خود مختار نہیں حکمرانوں کی صوابدید پر کام کررہے ہیں۔اور اس حقیقت سے تو آج سبھی واقف ہیں کہ مرکزی سرکار تاریخ تعلیم اور ادب سے وابستہ اداروں میں بھی مخصوص نظریات کے افراد کو بٹھاتی رہی ہے، جنہوں نے اس کے اشارے پر کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ اب قلم کاروں کے احتجاج کا یہی مناسب طریقہ ہے جس کوعام حمایت بھی مل رہی ہے۔
جواب دیں