ڈاکٹر تابش مہدی کا انتقال اسلامی ادب کے لیے بڑا خسارہ

عبدالغفارصدیقی
بعض اشخاص اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں ۔وہ تنہا ہوکر بھی تنہا نہیں ہوتے ،وہ خلوت میں بھی جلوت کا لطف لیتے ہیں ۔ایسے اشخاص میں سے تھے ہم سب کے بہی خواہ جناب ڈاکٹر تابش مہدی صاحب جن کے لیے اب ہم رحمۃ اللہ لکھنے پر مجبور ہیں ۔ویسے تو یہ دعائیہ جملہ ہے ہر کسی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے لیکن اصطلاحاً ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں ۔ڈاکٹر تابش صاحب بھی22؍جنوری2025کی صبح اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔دنیا میں ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر آپ ان سے بات کرنے کی آرزو کریں ،جن کا کلام سن کر ان سے ملنے کی تمنا کریں ،ایسے ہی کمیاب افراد میں ڈاکٹر صاحب کا شمار ہوتا ہے ۔جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کا کلام سنا ہے ،خاص طور پر نعتیہ کلام ،تو وہ ان کے گرویدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں ۔میں ان کے معتقدین میں اس وقت شامل ہوچکا تھا جب میری ان سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔پھر جس دن ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی اور قریب سے سننے کا موقع ملا تو میری عقیدت میں اضافہ ہوگیا۔دور حاضر میں ایسا بہت کم رہ گیا ہے کہ شخصیات جیسی دورسے دیکھنے اور سننے میں لگتی ہیں وہ حقیقی دنیا میں بھی ویسی ہی ہوں،لیکن ڈاکٹر صاحب کی جلوت و خلوت یکساں تھی ،وہ جیسے باہر تھے ایسے ہی اندر تھے ،جیسے وہ اسٹیج پر تھے ایسے ہی وہ گھر میں تھے ۔ان سے میرا تعلق تقریباً14برسوں پر محیط ہے ۔میں نے ان کو نہایت قریب سے دیکھا ہے ۔میں نے ان کو ہمیشہ سب کا خیرخواہ پایا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خوبی حب رسول ؐ ہے ۔یوں تو ہر مومن اور مسلمان اللہ کے رسول ؐ سے بے پناہ محبت کرتا ہے ،لیکن کم لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں ذکر رسولؐ سے تر ہوجائیں ،جن کے کلام میں عشق رسول کی جھلک نمایاں نظر آئے ،جو نعت کہنے ،سننے اور سنانے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں ،وہ جب نبی پاک ﷺ کا ذکر کرتے آواز رندھ جاتی ،مخاطب کو کان لگاکر سننا پڑتی ۔ان کے کئی نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے ،اس کے علاوہ غزلوں میں زیادہ تر مقامات پر بھی ان کا محبوب رسول اکرم ؐ کی ذات مبارک ہے ۔ان کے یہاں بغیروضو اور ٹوپی کے نعت پڑھنا ایک طرح سے گناہ تصور کیا جاتا تھا ۔اسی کے ساتھ نعتیہ کلام میں ڈاکٹر صاحب اہل بیت اور صحابہ کرام ؓ کے ذکر کو ضروری خیال کرتے تھے ۔ان کی شاید ہی کوئی نعت ہو جس میں عظمت صحابہ پر کوئی شعر نہ ہو ،وہ نعت میں صحابہ کرام ؓکا ذکر ضرور کرتے اور شاگردوں سے اس کا اہتمام کراتے ۔وہ ایک عرصہ تک امروہہ رہے تھے ،جہاں اہل تشیع کی قابل ذکر آبادی ہے ،وہ لوگ چونکہ اصحاب رسولؐ کا ذکر نہیں کرتے ،اور اگر کرتے ہیں تو اہانت آمیز رویہ اپناتے ہیں ،شاید ڈاکٹر صاحب پر اس ماحول کا بھی اثر ہواور انھوں نے اپنی زندگی کا مقصد صحابہ ؓ کی عظمت بیان کرنا بنالیا ہو۔ظاہر ہے اہل ایمان کے نزدیک صحابہ کرام کی حیثیت مقتداء کی ہے ،اصحاب رسولؐ کی فضیلت پر قرآن کی آیات گواہ ہیں ،جماعت صحابہ ؓنے رسول گرامی کو اپنی آنکھوں سے حالت ایمان میں دیکھا ہے ،اسلام کے فروغ میں ان کی قربانیاں لازوال ہیں ،جب ایک مومن صحابہ کے بارے میں کوئی خلاف مرتبہ بات سنتا ہے تو اسے تکلیف ہوتی ہے ۔اسی لیے ڈاکٹر صاحب کی نعتوں میں اصحاب رسول کا ذکر بکثرت ہے ،پھر کبار صحابہ پر ان کی منقبتیں ہیں اور منقبتوں پر بھی مشتمل ان کا مجموعہ ہے ،امہات المومنین پربھی ان کا کلام ہے ۔
ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کی ایک خوبی خورد نوازی ہے ۔یہ خوبی شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے ۔ذرا سا انسان بڑا ہوا ،اسے شہرت ملی ،اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا اور اس نے اپنے چھوٹوں کو فراموش کردیا ۔صرف دنیا داروں میں ہی نہیں دین داروں میں بھی یہ کمزوری پائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر تابش مہدی اگر چہ مال کی حیثیت سے کروڑ پتی انسان نہیں تھے ،وہ صاحب مسند و اقتدار بھی نہیں تھے ،لیکن علم و ادب کی دنیا میں ان کے علومرتبت سے کون منکر ہوسکتا ہے ،ان کا احترام مشرق تا مغرب دیکھا جاسکتا ہے ۔ان کی نثر و نظم کے جمال و کمال کے اہل دانش و بینش معترف ہیں ،وہ قلم کے بادشاہ تھے ۔ان کی زبان صاف ستھری اورفصاحت و بلاغت سے پر تھی ۔شاعری اور بطور خاص نعت گوئی میں اس وقت ہندوستان میں ان کا کوئی ہم سر نہیں تھا ،علمی کاموں کی مصروفیت بھی بہت زیادہ تھی ،گزشتہ پانچ سات سال سے بیماریوں نے بھی آگھیرا تھا ،بڑھتی عمر اور فیملی کے بھی اپنے تقاضے ہوتے ہیں ،اس کے باوجود کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے شاگردوں کا فون نہ کیا ہو ،اگر کسی وجہ سے ایسا ہوا بھی توفوراً واپس کال موصول ہوگئی ،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ گھر پر ہوں اور ملنے سے انکار کردیں ۔ڈاکٹر صاحب اس سے بھی دو قدم آگے تھے ،وہ اپنے شاگردوں کو فون کرکے ان کی خیریت دریافت کرتے تھے ،مجھے اپنے اوپر شرم آتی، جس وقت ان کا فون آتا اور وہ صرف میری خیریت اور اہل خانہ کی خیریت معلوم کرنے پر اکتفا کرتے ۔کبھی کبھی مشق سخن جاری رکھنے پر متوجہ کرتے ۔وہ اپنے چھوٹوں اور شاگردوں کو ’’ بیٹا ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر تابش مہدیؒ قادر الکلام شاعر تھے ۔کہتے بھی بہت تھے ۔قادر الکلامی یا زود گوئی کی صفات بہت سے شعرا میں پائی جاتی ہے ،لیکن ڈاکٹر صاحب کے اندر اسی کے ساتھ ایک خوبی اور تھی جو بہت کم شاعروں میں پائی جاتی ہے ۔وہ شعری کلام کی اصلاح پرکمال کی قدرت رکھتے تھے ۔آپ کوئی نعت یا غزل لے جائیے یا ان کو واٹس اپ کردیجیے اور ہاتھوں ہاتھ اس کی اصلاح کرالیجیے ۔آپ پرھتے جائیے اور وہ جہاں ضرورت محسوس کریں گے روک کر آپ کو درست کردیں گے ۔آپ کسی شعری مجلس میں شریک ہیں اور کوئی تازہ غزل پڑھنا چاہتے ہیں ،ڈاکٹر صاحب بھی تشریف فرما ہیں ،آپ چپکے سے وہ غزل ان تک پہنچا دیجیے ،چند ثانیہ بعد خامشی سے اصلاح شدہ غزل آپ کے ہاتھوں میں ہوگی ۔یہ ملکہ میں نے یا تو حضرت ابوالمجاہد زاہد صاحب ؒ میں دیکھا تھا یا ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کے یہاں دیکھا ۔ورنہ بڑے بڑے زود گو شاعربھی ہفتوں ہفتوں تک شاگردوں کی غزل کو بغل میں دبائے پھرتے ہیں اور بہانے بناتے رہتے ہیں ۔ڈاکٹر تابش مہدی صاحب اصلاح کرنے کے فن سے کما حقہ واقف تھے ۔
ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے شاگردوں کی کامیابی پر خوش ہوتے تھے ۔آپ کہیں گے کہ یہ تو کوئی خاص بات نہیں ،ہر استاذ اپنے شاگردوں کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے ،لیکن اگر آپ شاعروں کی دنیا کو قریب سے جانتے ہوں تو ایسا نہیں کہیں گے ۔شاعری کی دنیا میں حسد و رقابت کا بول بالا ہے ،وہ اپنی غزلوں میں رقیب کا استعمال کرتے کرتے خود رقیب کا رول ادا کرنے لگتے ہیں ۔شاگردوں سے بس جوتیاں سیدھی کرواتے رہتے ہیں ،انھیں شاعری کے کسی رمز سے آشنا نہیں کرتے ،انھیں اپنے ساتھ کہیں نہیں لے جاتے ،ان کا نام بھی کہیں نہیں لکھواتے ،فارغ الاصلاح بھی نہیں کرتے ،اس طرح بہت سے ذہین افراد ضائع ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر تابش مہدی صاحب نے اپنے بہت شاگردوں کو پڑھنے کے مواقع دیے ۔ان کو متوجہ کیا کہ اپنا کلام شائع کرائیں ،شائع ہوجانے پر اکیڈمیز میں جمع کرانے کی جانب توجہ دلاتے ،مجھے خود اسی دسمبر میں انھوں نے اتر پردیش اردو اکیڈمی کا فارم بھیجا اور فون کرکے کہا کہ اپنا مجموعہ کلام وہاں جمع کرائیے ۔شاگردوں کو آگے بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی یہ صفت ان میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔اس کا نتیجہ ہے کہ ان کے کئی شاگرد آج ادب میں اچھے مقام پر ہیں ۔حوصلہ افزائی کرنا ان کا شیوہ تھا ۔انھوںنے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی ،مبتدی شعراء کے بے تکے اشعار کو بھی پھاڑ کر نہیں پھینکا بلکہ ان کو درست کردیا اور کہا کہ اصلاح پر غور کریں ۔کبھی کسی سے نہیں کہا کہ تم شعر گوئی کی صلاحیت نہیں رکھتے ،بلکہ وہ کہتے تھے کہ ایک اچھا نثر نگار بھی تب ہی بنا جاسکتا ہے جب وہ اچھا شعری ذوق رکھتا ہو۔وہ کہتے تھے دنیا میں جتنے بڑے لوگ ہوئے ہیں وہ شاعری کا ذوق رکھتے تھے ،یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے کمال نثر میں دکھایا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ نثر نگار اپنی نثر کو حسن دینے کے لیے اشعار کا سہارا لیتے ہیں ،مقررین اپنی بات میں اثر اور زور پیدا کرنے کے لیے سامعین کو اشعار سناتے ہیں ۔
ڈاکٹر تابش مہدی ؒ شاعری کو ہمہ وقتی کام بتاتے تھے ۔ان کی ہدایت رہتی تھی کہ شاعری کو محض تفنن طبع کے لیے نہ کیا جائے بلکہ اسے مقصد زندگی بنایا جائے ،اس پر وقت صرف کیا جائے ،اس کو اہمیت دی جائے ،یہ فل ٹائم جاب ہے ۔یہ انسان کا پورا وقت اور پوری یکسوئی کی طالب ہے ۔ہم لوگوں کی سستی اور کوتاہی پر متنبہ بھی کرتے تھے ۔میں نے خود بھی محسوس کیا کہ واقعی شعرو شاعری ہر وقت خود کی جانب متوجہ رکھتی ہے ۔شاعرخواہ کوئی کام کررہا ہو،کہیں جارہا ہو،کہیں بیٹھا ہو ،اس کے ذہن میں کوئی نہ کوئی مصرع چل رہا ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ بعض اوقات نماز میںاشعار کا نزول ہونے لگتا ہے ،اس وقت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے ۔شعر یاد رکھنے پر توجہ دیں تو رکعات کی تعداد ہی بھول جائیں ،کئی بار خود کو نماز کی جانب یکسو کرنا پڑتا ہے ۔میں سمجھتا تھا کہ شاید ایسا میرے ساتھ ہی ہوتا ہے ۔مگر ایک بار ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے حضرت قمر رسول پوری پر ایک نظم کہنے کا حکم دیا ،ایک مصرع بھی دیا اور کہا کہ آج ہی اس پر آٹھ دس اشعار کہہ ڈالو ،کسی رسالہ میں صبح میں بھیجنا ہے ۔غالباً عصر بعد انھوں نے مصرع دیا ۔میں نے توجہ کی اور مغرب بعد تک چھ اشعار کہہ دیے ۔ان دنوں میں مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی میں رہتا تھا ۔ڈاکٹر صاحب عشاء سے چند منٹ پہلے تشریف لے آئے اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے ؟میں نے چھ اشعار ان کے سامنے پیش کردیے ،انھوں نے پڑھے ،کچھ اصلاح کی اور کہا کہ ابھی کم ہیں اور دو تین اشعار کہو ۔اتنے میں اذان ہوگئی اور ہم لوگ مسجد چلے گئے ۔نماز میں نے ٹھیک ان کے پیچھے پڑھی ۔قلم کاغذ میری جیب میں تھا ۔ایک شعر نماز میں ہوگیا ۔سلام پھیرنے کے بعد میں اس انتظار میں رہا کہ ڈاکٹر صاحب کو جلد ہی اپنا شعر سنادوں ،ایسا نہ ہو کہ کہیں بھول جائوں ۔کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کھڑے ہوکر ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں ،میں نے اپنی جانب متوجہ کیا تو کہنے لگے :’’ ارے میں آپ ہی کو دیکھ رہا تھا ،دو شعر لکھ لیجیے ،میں نے فوراً کاغذ نکالا اور اور لکھ لیے‘‘ پھر میں نے اپنا بھی شعر سنایا ،بولے ،ہاں ٹھیک ہے ،اب پوری نظم ہوگئی ،مجھے ٹائپ کرکے بھیج دیجیے ،اس سے اندازہ ہوا کہ شاعری کا تعلق الہام سے ہے اوراللہ معاف فرمائے ، الہام کسی بھی حالت میں متوقع ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا پورا کلام اخلاقی تعلیمات اور تعمیری ادب کا نمائندہ کلام ہے ،وہ ادارہ ادب اسلامی کے روح رواں تھے ۔انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ سماج میں اخلاقی اقدار کو فروغ بخشااوراس منزل کے مسافروں کے لیے مثبت تعمیری نقوش چھوڑے ۔
ڈاکٹر صاحب جتنے اچھے شاعر تھے ،اس سے کہیں زیادہ اچھے انسان اور مسلمان تھے ۔اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھے ۔غیبت کرنے ،لوگوں میں عیب تلاش کرنے کی ان میں عادت نہ تھی ،اپنے ناقدین کا بھی احترام کرتے تھے ۔کسی مسلک سے اجتناب نہ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی میں رہنے کے باوجود ہر مکتب فکر اور جماعت میں یکساں مقبول تھے ۔ان کے جنازے میں شریک ہونے والوں کی فہرست پر آپ نظر ڈالیں گے تو میری بات کی تائید ضرور کریں گے ۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔آمین