نئی دہلی: دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں شرکت کے لیے دہشت گردی کی فنڈنگ کیس کے ملزم اور ایم پی انجینئر رشید کو حراستی پیرول پر رہا کرنے کے مطالبے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج چندر جیت سنگھ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ ر کھا۔ انجینئر رشید نے 21 جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں شرکت کے لیے حراستی پیرول کا مطالبہ کیا ہے۔
انجینئر رشید کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ انجینئر رشید بارہمولہ سے رکن پارلیمنٹ ہیں اور بارہمولہ کی آبادی جموں و کشمیر کی کل آبادی کا 45 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی آبادی کی نمائندگی کو خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انجینئر رشید کو حراستی پیرول پر رہا کیا جائے۔ رشید اس وقت عدالتی حراست میں ہیں۔ اس سے قبل دہلی ہائی کورٹ نے انجینئر رشید کو 26 مارچ سے 4 اپریل تک پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی تھی۔
آپ کو بتا دیں کہ 25 مارچ کو دہلی ہائی کورٹ نے انجینئر رشید کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت دی تھی۔ رشید انجینئر نے لوک سبھا انتخابات 2024 میں بارہمولہ لوک سبھا حلقہ سے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو تقریباً ایک لاکھ ووٹوں سے ہرا کر جیتا تھا۔ رشید انجینئر کو این آئی اے نے 2016 میں گرفتار کیا تھا۔
یہ پورا معاملہ ہے
16 مارچ 2022 کو پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے حافظ سعید، سید صلاح الدین، یاسین ملک، شبیر شاہ مسرت عالم، راشد انجینئر، ظہور احمد وتالی، بٹہ کراٹے، آفتاب احمد شاہ، اوتار احمد شاہ، نعیم خان، بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ علی اور دیگر ملزمان کے خلاف الزامات عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔ این آئی اے کے مطابق پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے تعاون سے لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جے کے ایل ایف، جیش محمد جیسی تنظیموں نے جموں و کشمیر میں شہریوں اور سیکورٹی فورسز پر حملے اور تشدد کیا۔
این آئی اے کے مطابق حافظ سعید نے حریت کانفرنس کے لیڈروں کے ساتھ مل کر دہشت گردانہ کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے حوالات اور دیگر چینلز کے ذریعے فنڈز کا لین دین کیا۔ انہوں نے اس رقم کو وادی میں بدامنی پھیلانے، سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے، اسکولوں کو جلانے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ وزارت داخلہ سے اس کی اطلاع ملنے کے بعد این آئی اے نے تعزیرات ہند کی مختلف دفعات اور یو اے پی اے کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔


