اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے خبردار کیا ہے کہ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو ایک بار پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، نیتن یاہو کی سیاسی تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے کسی بھی امن پیش رفت یا سمجھوتے کو ناکام بنانے سے گریز نہیں کرتے۔
اسرائیلی تجزیہ کاروں نے کہا کہ نیتن یاہو کی ترجیح ہمیشہ اپنی سیاسی بقا رہی ہے، اور وہ ایسی کسی بھی ڈیل کو قبول نہیں کرتے جو ان کی طاقت یا اثرورسوخ کو محدود کر دے۔ مبصرین کے مطابق، "ٹرمپ پلان” بھی اسی انجام سے دوچار ہو سکتا ہے اگر امریکا اور عالمی قوتیں نیتن یاہو پر حقیقی دباؤ نہ ڈالیں۔
سیاسی رہنماؤں کی تنقید
اسرائیل کی حزبِ مخالف کے رہنما یائر گولان نے چینل 13 سے گفتگو میں کہا کہ "نیتن یاہو کی حکومت نے ہمیشہ امن کے مواقع کو ضائع کیا ہے، اور موجودہ منصوبے سے بھی زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔” ان کے مطابق، نیتن یاہو اس وقت تک کسی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کریں گے جب تک انہیں یقین نہ ہو کہ اس کا سیاسی فائدہ انہیں ہی ملے گا۔
اسی طرح، حزبِ مخالف کی جماعت یش عتید (There is a Future) کی رکن پارلیمنٹ کارن الہَرار نے بھی کہا کہ "نیتن یاہو نے کبھی کسی امن معاہدے میں دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ انہیں دانستہ طور پر نظرانداز کیا۔”
ماضی کی ناکام کوششیں
اسرائیلی شمالی کمان کے سابق سربراہ نوعام تیْبون نے انکشاف کیا کہ اکتوبر 2023 میں قطر کی جانب سے ایک تجویز آئی تھی، جس میں حماس نے خواتین، بچوں اور بزرگوں کی رہائی کے بدلے کم عمر فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی پیشکش کی تھی، لیکن نیتن یاہو نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔
تیبون کے مطابق، “اس فیصلے کی قیمت عام شہریوں نے اپنی جان سے چکائی۔”
حماس کے ہاتھوں اغوا شدہ افراد کے اہلِ خانہ نے بھی نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ ان کی ضد اور تاخیری حربوں نے درجنوں یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ ایک اسرائیلی خاتون عبیر گولڈسٹائن نے کہا کہ “43 مغوی ایسے تھے جو زندہ تھے لیکن اسرائیلی فوجی دباؤ یا تاخیر کے باعث مارے گئے۔”
نیتن یاہو کی "کریڈٹ پالیسی”
نیتن یاہو کے سابق میڈیا مشیر آویو بوشنسکی نے اعتراف کیا کہ وزیراعظم اکثر اپنی سیاسی مقبولیت بڑھانے کے لیے کامیابیوں کا سارا کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق، نیتن یاہو نے حالیہ عرصے میں بھی کئی بیانات دے کر یہ تاثر دیا کہ “تمام فیصلے اور اقدامات انہی کے حکم سے ہوئے۔”
بوشنسکی نے کہا کہ "اصل میں وہ ہر معاہدے یا تجویز کو اس وقت تک روک کر رکھتے ہیں جب تک اس کا کریڈٹ انہیں خود نہ ملے۔”
"سیاسی انا” یا "قومی مفاد”؟
سابق وزیر یزہار شائی، جن کا بیٹا 7 اکتوبر کے حملے میں مارا گیا، نے کہا کہ نیتن یاہو خود کو "اسرائیل کا نجات دہندہ” سمجھتے ہیں اور یہی خود فریبی انہیں ہر سیاسی بحران میں سمجھوتے سے روکتی ہے۔
ان کے بقول، "نیتن یاہو نے کبھی غزہ کے لیے کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں بنائی بلکہ وہاں کی صورتِ حال کو بگڑنے دیا تاکہ وہ داخلی سیاست میں مضبوط رہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر نیتن یاہو اپنی پرانی روش پر قائم رہے تو ٹرمپ کا امن منصوبہ بھی ماضی کی تمام کوششوں کی طرح ناکامی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے صدر ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ وہ "نیتن یاہو کے سیاسی کھیلوں” سے ہوشیار رہیں، ورنہ امن کا ایک اور موقع تاریخ کے اوراق میں دفن ہو جائے گا۔




