نرسمہا نند کی گستاخی کیخلاف اترپردیش میں خصوصی الرٹ

غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے مہنت یتی نرسمہا نند کی گستاخی سے ان دنوں پورے ملک کے امن پسند عوام میں غم و غصہ پایاجارہا ہے بالخصوص اترپردیش میں حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ریاست کے غازی آباد، مظفر نگر اور سہارنپور سمیت کئی اضلاع میں رسول پاکؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے مہنت کے خلاف مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ گستاخ مہنت کی بیان بازی اورمسلم طبقے کی ناراضگی کا اثر یوپی کی سیاست پربھی پڑا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی اوربی ایس پی کے لیڈروں نے اس مسئلے پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن بی جے پی کے رکن اسمبلی نے الٹےمظاہرین کے ہی خلاف انکاؤنٹرکی کارروائی کا مطالبہ کرکےآگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ حالانکہ وزیراعلیٰ یوگی نے پریاگ راج میں سادھو۔ سنتوں کومنفی بیانات سے گریزکرنے کی صلاح دی ہے۔ 
اترپردیش کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نےنازیبا اور قابل اعتراض بیان پر سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے یتی نرسمہا نند کومنافرت پھیلانے والا ’پاکھنڈی ‘قرار دیا اوراس کے خلاف این ایس اے اوریو اے پی اے کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کیرانہ سے سماجوادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نے متنازع بیانات کے لئے بدنام مہنت یتی نرسمہانند کے بیان کو امن پسند شہریوں کے لئے ناقابل برداشت قراردیتے ہوئے اس کے معاملے میں یوپی حکومت کے نرم رویہ پر بھی تنقید کی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کے خلا ف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ایک نظیر قائم ہو اور دیگر متعصب ذہنیت کے لوگوں کےلئےبھی باعث عبرت ہو۔ اقرا حسن نے ایک ویڈیو بیان جاری کرکے یہ انتباہ بھی دیا ہے کہ حکومت نے اگر اس مسئلے پرمعقول کارروائی نہیں کی تووہ اس معاملہ کوپارلیمنٹ میں اٹھائیں گی اور ضرورت پڑنے پرسپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹائیں گی۔ 

اترپردیش کی دوسری اہم سیاسی جماعت بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے بھی مذکورہ معاملہ پر برہمی کا اظہارکیا اور کہا کہ ڈاسنہ مندر کے مہنت نے ایک بار پھر مذہب اسلام کے خلاف نفرت انگیز بیانات د ئیے ہیں جس سے پورے علاقے اور ملک کے کئی حصوں میں بدامنی اور تناؤ کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ پولیس نے جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کارروائی کی جبکہ اصل ملزم خوف سے آزاد ہے اور آگے بھی اسی طرح کے متنازع اور دل آزاد بیانات دے سکتا ہے۔ مایاوتی نے ’ایکس‘ پرلکھتے ہوئے مزیدکہا کہ ہندوستانی آئین سیکولرازم یعنی تمام مذاہب کے لئے یکساں احترام کی ضمانت دیتا ہے۔ اس لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریں تاکہ ملک میں امن و امان قائم رہے اور ملک کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ 
 ایک طرف ملک کے سیکولر اور سبھی مذاہب کےامن پسند شہری نرسمہا نند کی گستاخی پرغم و غصہ میں ہیں وہیں لونی سے بی جے کے رکن اسمبلی نندکشور گرجرنے ڈاسنہ مندرکے باہر ہوئے احتجاج کو مندر اور سناتن دھرم پر حملے سے تعبیرکرتے ہوئے اشتعال انگیز بیان د ئیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر پولیس نے لاٹھی چارج کر کے ڈراما کیا ہے جبکہ ان کے خلاف انکاؤنٹر کی کارروائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے مظاہرین کو جہادی بتایا اورکہا کہ انکاؤنٹر میں دس بیس لوگ مر جاتے تو اتنا ہنگامہ کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔ دریں اثناء اس معاملے میں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پریاگ راج کےپریڈ گراؤنڈ میں ۳۴؍سنتوں اور۱۳؍اکھاڑوں کے اہم عہدیداروں کے ساتھ میٹنگ کے دوران سادھو سنتوں کو منفی بیانات سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بہرحال اب تک نرسمہانند کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ اسے پولیس نے حراست میں تو لے لیا ہے لیکن اپنی حفاظت میں رکھا ہوا ہے۔ پولیس کی اس حرکت پر انصاف پسند حلقوں کی جانب سے شدید تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ 

«
»

گوا میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش پر راہل گاندھی برہم

کیا جموں کشمیر ایل جی کا فیصلہ الیکشن کے نتائج پر ہوگا اثرانداز، کیا ہےایل جی کےذریعہ پانچ ایم ایل اے کی نامزدگی کا معاملہ