فلسطینی پناہ گزین عمر یاغی نے نوبل انعام جیت لیا — صحرا کی ہوا سے پانی نکالنے والی سائنسی ایجاد پر عالمی اعتراف
(اسٹاک ہوم / عمان / برکلے) — فلسطینی نژاد سائنس داں عمر یاغی، جو اردن کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پلے بڑھے، نے کیمسٹری کے شعبے میں 2025ء کا نوبل انعام جیت کر تاریخ رقم کردی۔ انہیں یہ اعزاز جاپان کے سوسومو کیٹاگاوا اور آسٹریلیا کے رچرڈ روبسن کے ساتھ "میٹل آرگینک فریم ورکس” (MOFs) کی ایجاد پر دیا گیا ہے — ایک ایسا نیا سالماتی نظام جو خطرناک گیسوں کو جذب، ذخیرہ یا تحلیل کر سکتا ہے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
نوبل کمیٹی کے مطابق یہ فریم ورکس صحرا کی خشک ہوا سے پانی حاصل کرنے، کاربن ڈائی آکسائیڈ کو قید کرنے، زہریلی گیسوں کو محفوظ رکھنے اور کیمیائی تعاملات کو تیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں — یعنی انسانیت کے بڑے چیلنجز کے حل میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انعام جیتنے کے بعد ٹیلی فونک گفتگو میں عمر یاغی نے کہا:
"میں حیران، خوش اور مغلوبِ احساسات ہوں۔ میں ایک نہایت معمولی گھر میں پلا بڑھا، جہاں درجنوں افراد ایک چھوٹے کمرے میں رہتے تھے اور مویشیوں کے ساتھ جگہ بانٹتے تھے۔ میرے والدین پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ سائنس نے مجھے اس سب سے اوپر اٹھنے کا موقع دیا۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی مساوات پیدا کرنے والی قوت ہے۔”
عمر یاغی عمان کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 15 سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہوگئے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف الینوائے سے پی ایچ ڈی حاصل کی اور اس وقت یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں پروفیسر ہیں۔
اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے ایک پوسٹ میں مبارکباد دیتے ہوئے لکھا:
"پروفیسر عمر یاغی کی کامیابی اردن کا فخر ہے۔”
نوبل کمیٹی کے چیئرمین ہینر لنکے نے کہا کہ یاغی اور ان کے ساتھیوں نے ایسے مادّے بنائے ہیں جن کے اندر کھوکھلے ڈھانچے موجود ہیں — جیسے کسی ہوٹل کے کمروں میں مہمان آجا سکتے ہیں۔
انہوں نے ان مادّوں کو "ہیری پوٹر” کی ہرمیونی کے جادوئی بیگ سے تشبیہ دی — جہاں چھوٹی سی جگہ میں بڑی مقدار میں گیسیں محفوظ کی جاسکتی ہیں۔
فلسطینی صحافی محمد شہادہ نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یاغی کی کامیابی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ "غزہ میں سینکڑوں اسکالرز اسرائیلی نسل کشی میں مارے جا چکے ہیں، ورنہ وہاں سے بھی کئی نوبل یافتہ نکل سکتے تھے۔”
عمر یاغی نے آخر میں کہا:
"میں نے خوبصورت چیزیں تخلیق کرنے اور ذہنی چیلنج حل کرنے کا عزم کیا تھا — اور یہی میری کامیابی کی بنیاد بنی۔”




