یہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان لڑی جانے والی سب سے طویل، سب سے خونریز، اور سب سے تباہ کن جنگ ہے۔
ایک ایسی جنگ جس نے غزہ کے جسم کو جلا کر راکھ کر دیا ، مگر اس عمل میں اسرائیل کی روح اور اخلاقی ساکھ کو بھی خاکستر کر دیا۔
یہ جنگ جس کا انجام محض ایک امریکی تماشا بننے جا رہا ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کیمروں کے سامنے کی گئی سفارت کاری سے مزین،
جہاں وہ اسرائیل جا کر باقی ماندہ یرغمالیوں کا استقبال کریں گے، اور دنیا کے سامنے ایک مصنوعی امن کا اعلان ہوگا۔
لیکن درحقیقت یہ امن نہیں، ایک عارضی وقفہ ہے ، ایک ایسی جنگ کا موڑ جو ختم نہیں ہوئی بلکہ شکل بدل چکی ہے۔
دو برس کی بربادی کے بعد، اسرائیل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے حماس کو نیست و نابود کر دیا، اس کے 25 ہزار افراد مارے گئے، قیادت ختم کر دی گئی، اور غزہ اب اس کے رحم و کرم پر ہے۔
مگر حقیقت بالکل مختلف ہے۔حماس اب بھی منظم ہے، اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سلامت ہے، اور اس کے پاس وہی وسائل ہیں جو جنگ کے آغاز میں تھے۔اس نے اس ظلم کے سمندر میں ڈوب کر بھی اپنی عسکری قوت اور عوامی مقبولیت برقرار رکھی۔
غزہ کے اندر اس کی ساکھ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی،اور مغربی کنارے سمیت عرب دنیا میں اس کے افراد افسانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
حماس اس لمحے کو شکست نہیں بلکہ مزاحمت کی فتح سمجھتی ہے۔اس کے نزدیک جنگ بندی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسرائیل 1967 کی سرحدوں تک پیچھے ہٹےاور بیت المقدس سمیت تمام مقبوضہ علاقوں سے اپنا قبضہ ختم کرے۔
غزہ کی راکھ میں دفن اسرائیلی فریب
اسرائیل نے غزہ کو نیست و نابود کر دیا۔شہر اجڑ گئے، مساجد، اسپتال، اسکول سب زمین بوس ہو گئے۔مگر اس تباہی کے ملبے میں ایک اور چیز دفن ہو گئی:
اسرائیل کی وہ اخلاقی ساکھ جس پر اس نے پورے مغرب کی ہمدردی کا محل تعمیر کیا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسرائیل نے خود کو ایک مظلوم قوم کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا، یہودیوں کے لیے ایک "اخلاقی ریاست”، ایک "پناہ گاہ”یہ بیانیہ مغرب کی گناہگار ضمیر کو سکون دینے کے لیے کافی تھا۔ مگر غزہ کی دو سالہ نسل کشی نے اس فریب کو ننگا کر دیا۔
اب وہی مغرب جو کبھی اسرائیل کی اندھی حمایت کرتا تھا،آج اس کی جنگی درندگی پر چیخ رہا ہے۔رائے عامہ بدل چکی ہے، میڈیا کا لہجہ نرم نہیں رہا، اور سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں سترہ گنا زیادہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں ہونے والے سروے بتاتے ہیں کہ اب پہلی بار عام عوام کی اکثریت فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
امریکی ووٹرز میں صرف 34 فیصد اسرائیل کے حمایتی رہ گئے ہیں، جبکہ 35 فیصد اب فلسطینیوں کے حامی ہیں،یہ تاریخی موڑ ہے۔
نوجوان نسل، خاص طور پر تیس سال سے کم عمر ووٹرز میں،اسرائیل کی حمایت سیاسی زہر بن چکی ہے۔یونیورسٹیاں، سوشل میڈیا، حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے نومنتخب ارکان تک اب اسرائیل کے سفارتی ایجنڈے سے فاصلے پر ہیں۔
عالمی عدالتوں میں اسرائیل مجرم ٹہرا
بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور عالمی فوجداری عدالت کے سامنے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔یہ وہی اسرائیل ہے جس نے ہمیشہ مغرب کے دوہرے معیار سے فائدہ اٹھایا، جہاں پوٹن پر جنگی جرائم کا الزام عائد کیا جاتا ہے مگر نیتن یاہو کو تحفظ دیا جاتا ہے، اب یہ تضاد مزید چھپایا نہیں جا سکتا۔
یورپ کی گلیوں میں لاکھوں لوگ فلسطین کے پرچم اٹھائے نکل رہے ہیں۔
نیدرلینڈ سے لے کر اسپین، اٹلی اور برطانیہ تک اسرائیل کے خلاف احتجاج اب عوامی انقلاب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
اب مغرب کو غیرانتہا پسند بننے کی ضرورت ہے
تاریخ کا پہیہ پلٹ چکا ہے۔
وہ زمانہ گزر گیا جب اسرائیل کی حمایت کرنا سیاسی شرافت کی علامت تھی۔اب یہ بدنامی اور عوامی غصے کا سبب بن چکا ہے۔
اس جنگ نے فلسطینیوں کو بکھیرنے کے بجائے انہیں مزید متحد کر دیا ہے۔دنیا بھر میں فلسطینی نوجوان، دانشور، فنکار اور محقق اب ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
امریکہ کے منصوبے، ٹرمپ کے معاہدے،اور اسرائیل کے "امن کے ڈرامے” ان سب کی حقیقت کھل چکی ہے۔
اسرائیل نے غزہ کو نیست و نابود کیا،مگر اس تباہی نے دنیا کے سامنے یہ حقیقت عیاں کر دی کہ طاقت سے امن پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل نے اپنے ہاتھوں سے وہ بنیاد توڑ دی جس پر اس کی عالمی حیثیت قائم تھی۔
غزہ کی اینٹوں کے ساتھ ساتھ اس کی اخلاقی عمارت بھی زمیں بوس ہو چکی ہے۔اور اب تاریخ کی عدالت میں،
اسرائیل نہیں۔۔۔مغرب کا ضمیر کٹہرے میں ہے۔
یہ مضمون اصل میں David Hearst نے Middle East Eye کے لیے تحریر کیا تھا اور یہاں اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔




