عاجزی و انکساری اور سادگی و استغنا کے پیکر مولانا سید محمد جعفر مسعود حسنی ندوی

سراج الدین ندوی
چیر مین ملت اکیڈمی ۔بجنور

مولانا جعفر مسعودحسنی ندوی ؒ سے ہمارا دیرینہ تعلق رہا ہے۔4؍ نومبرسن 2023کو ہمارے تعلیمی ادارہ جامعۃ الفیصل تاج پورمیں عالمی رابطہ ادب اسلامی کے زیر اہتمام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کی حیات و خدمات پر ایک عظیم الشان سمینار منعقد ہوا تھا ۔جس میں پورے ملک سے تقریباً200علمی و ادبی شخصیات تشریف لائی تھیں ۔اس سمینار میں80 سے زیادہ مقالات پڑھے گئے تھے۔سمینار کی صدارت ندوۃ العلماء کے ناظم مولانا سید بلال حسنی ندوی دامت برکاتہم نے فرمائی تھی ۔اس سمینارمیں عالمی رابطہ ادب اسلامی کی رپورٹ مولانا سید محمد جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب نے پیش کی تھی ۔جو بہت جامع تھی ۔اس سمینار کی کئی نششتوں میں حضرت مولانا مرحوم اسٹیج پر جلوہ فرما رہے ۔سید بلال حسنی اور مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی صاحب کی شرکت کے سبب یہ سمینار نظم و انصرام اور مقالات و شرکاء کی تعداد و شرکت کے اعتبار سے بہت کامیاب رہا ۔مولانا نے رات کا قیام بھی فرمایا اوراس طرح ہمیں مولانا کی ضیافت و خدمت کا شرف حاصل ہوا۔
مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ میرے استاذ بھی تھے اور میرے مرشد بھی ،ان کے انتقال کے وقت میں بیرون ملک ہونے کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہیں کرپایا تھا ۔اس لیے بیرون ملک سفر سے واپسی پر پہلے میں ندوہ گیا اور ناظم ندوہ حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب و دیگر پسماندگان و سوگواران سے تعزیت کی۔ اس کے بعد مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کی قبر پر درود و فاتحہ پڑھنے اور محترم مولانا جعفر مسعود صاحب سے ملاقات کے لیے رائے بریلی گیا ۔میں نے مولانا کو پہلے سے ہی اپنے سفر کی اطلاع دے دی تھی ۔مولانا نے حکم دیا کہ آپ سیدھے گھر پر تشریف لائیں اور میرے ذاتی مہمان رہیں ۔چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی ۔مولانا نے ہمیں کافی وقت دیا ،بہت سی سہولیات مہیا کرائیں اور کھانا کھائے بغیر رخصت نہیں کیا۔میں ندوہ سال میں ایک بار ضرور حاضری دینے کی کوشش کرتا رہا ہوں ۔اس لیے مرحوم کو کئی مرتبہ قریب سے دیکھنے اور ان کی صلاحیتوں کو سمجھنے کا موقع ملا۔جب مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ حیات تھے اور ہمیں ان سے کوئی کام ہوتا تو مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی کے ذریعہ وہ کام آسانی سے ہوجاتا تھا ۔
ماضی قریب میں حسنی خاندان سے کئی عظیم شخصیات ہم سے رخصت ہوگئیں ۔جعفر صاحب کے بارے میں تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔اسی لیے جب ان کی وفات کی خبر ملی تو دل کو ایک جھٹکا سا لگا اور دماغ یقین کرنے پر تاخیر سے آمادہ ہوا۔لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ یقین کیا جائے یا نہ کیا جائے اس سے کسی کو چھٹکارا نہیں ہے ۔
یوں تو حسن اخلاق ایک عام سی بات ہوگئی ہے جو ہم اپنے تمام اصحاب علم و دانش اور بزرگوں کے بارے میں کہتے اور سنتے ہیں لیکن مولانا سیدمحمد جعفر مسعود حسنی ؒ صاحب تقویٰ اور کردار کے بہت بلند مقام پر فائز تھے ۔گفتگو کرتے وقت مخاطب کی بات کو نہ صرف غور سے سنتے تھے بلکہ ان کے چہرے کی شادابی اور لبوں کا تبسم مخاطب کو مزید باتیں کرتے رہنے کے لیے آمادہ رکھتے تھے ۔بقول احمد فراز
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
مولانا کی ایک خوبی یہ تھی کہ خوردوں کا بھی احترام کرتے تھے ۔وہ مجھ سے عمر میں چھوٹے تھے اور میرے استاذ زادے تھے ایک طرح سے وہ میرے بھائی ہوئے۔مگر ندوہ میں وہ جس مقام و منصب پر فائز تھے ان کے بڑے بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ لیکن وہ مجھ سے بات کرتے تو دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ میں ان کا استاذ ہوں اور وہ میرے شاگرد ہیں ۔یہ بات میں کسی مفروضہ کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ایک مرتبہ مجھ سے ایک شخص نے یہ سوال کردیا کہ کیا مولانا سیدمحمد جعفر مسعود حسنی ؒ صاحب آپ کے شاگرد ہیں؟میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ کہنے لگے کہ ان کے انداز گفتگو سے یہی مترشح ہورہا تھا ۔میں سائل کے اس تاثر پر خود سے بہت شرمندہ ہوا۔
مولانا کی ایک بڑی خوبی بے نیازی تھی ۔اس دور میں استغنا اور بے نیازی کی صفت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔وہ ندوہ کے ناظر عام تھے ،البعث الاسلامی اور الرائد کے ایڈیٹر تھے ،عالمی رابطہ ادب اسلامی کے ذمہ دار تھے ،اس کے علاوہ بھی درجنوں اداروں اور تنظیموں سے وابستہ تھے لیکن آسائش دنیا کا استعمال بہت کم کرتے تھے ۔ان کا لباس انتہائی سادہ ہوتا ،سادہ کھانا کھاتے تھے،ان کے دفتر پر کوئی دربان نہ تھا ،ان سے ملنے کے لیے کسی کو انتظار کی زحمت گوارہ نہیں کرنا پڑتی تھی ، ۔ناواقف شخص ان کو دیکھ کر ان کے مناصب کا اندازہ نہیں لگاسکتا تھا ۔یہ ان کی شان بے نیازی ہی تو تھی جس نے انھیں ہم سے جدا کردیا ،ذرا سوچئے 15؍جنوری کی شام اورموٹر سائکل سے سفر کررہے ہیں ۔سڑک کنارے اپنا مفلر درست کرنے کو ٹھہرے تھے کہ اجل کو ان پر پیار آگیا اور ان کو اپنے ساتھ رب حقیقی کی آسائش گاہ میں لے گئی ۔اتنے عہدوں پر فائز انسان کو تو اداروں کو جانب سے بھی کار میسر رہتی ہے اور پھر وہ تو خود بھی اس حیثیت کے مالک تھے کہ کار میں سفر کرسکتے تھے ،مگر ان کی سادہ طبیعت اس کو گوارہ نہیں کرتی تھی ۔
ان کی شان بے نیازی کا میں خود گواہ ہوں یا یو ں کہیے کہ شکار ہوچکا ہوں ۔جب میں ان سے ملاقات کے لئے رائے بریلی گیا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے تو واپسی پرمیں نے ان کے بچوں کو کچھ تحفہ دینا چاہا ،مگر مولانا نے سختی سے انکار کردیا اور کہا کہ ہمارے خاندان کے بچے اپنے مہانوں سے کوئی تحفہ قبول نہیں کرتے ،اگر ان کو اس کی اجازت دے دی گئی تو یہ ہر مہمان سے امید باند ھ لیں گے ،ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے دنیا اور اہل دنیاسے بے نیاز رہیں ۔میں یہ بات سن کر آب دیدہ ہوگیا ۔اللہ اکبر ،ایسے لوگ بھی اس زمین پر موجود ہیں جن کا اسوہ صحابہ کرام ؓ کی یاد دلاتا ہے ۔بے نیازی کی یہ صفت حسنی خاندان میں جس طرح پائی جاتی ہے کسی اور صاحب نسبت خاندان میں نہیں ملتی ۔حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا کردار بھی دنیا کے سامنے ہے ،وہ کس طرح دنیا کی وجاہت سے دور بھاگتے تھے ،مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کی شان بے نیازی کے بھی لوگ گواہ ہیں ،مولاناسید محمد واضح رشید ندوی ؒ کا بھی یہ نمایاں وصف تھا ۔انھی بزرگوں کا عکس جمیل مولانا سیدمحمد جعفر مسعود حسنی ؒ صاحب میں پایا جاتا تھا ۔وہ ان کے سچے جانشین تھے ۔ہم جب ندوہ جاتے تو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی تھی ،اب سوچتا ہوں کہ جب ندوہ جائوں گا تو کیا مجھے وہی اپنائیت مل پائے گی جو ان بزرگوں کی موجودگی میں ملتی تھی ۔
مولانا کے اوصاف میں ایک نمایاں وصف اور ممتاز خوبی خوش گفتاری تھی ۔وہ جب بات کرتے تھے تو نہ کوئی لفظ تلخ بولتے اور نہ چہرے سے کسی ناگواری کا اظہار کرتے تھے وہ اپنے اوپر تنقیدوں کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے اور بہت سی تلخ باتوں کو اپنے لب شیریں کے نیچے دبا دیتے تھے ۔ان کی خوش گفتاری ان کے قلم اور زبان سے شہد کی طرح ٹپکتی تھی ۔بلاشبہ وہ اسلاف کے زندہ نمونہ تھے ۔
وہ راہ اعتدال کے عامل تھے ۔دراصل ندوہ خود بھی راہ اعتدال کا مرکز و محور ہے ۔اس کے باوجود انسان کی اپنی فکر بھی اس کی تربیت میں کارفرما ہوتی ہے ۔حسنی خانوادے نے کسی بھی مسلک کے خلاف زبان و قلم کا استعمال نہیں کیا ،بلکہ جن لوگوں نے کیا ان کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی ۔مولانا جعفر مسعود ؒ حسنی بھی اسی مسلک کے داعی تھے ۔
وہ ندوہ کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے ،ندویت ان کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئی تھی ۔ندوہ میں بہت سے سخت مراحل آئے لیکن انھوں نے ان سب کا خوش اسلوبی سے سامنا کیا اور اپنی شبنم مزاجی سے مسائل کو حل کیا ۔
دکھ سکھ کے مرحلہ ہر کسی کی زندگی میں آتے ہیں اورزندگی کے نشیب و فراز سے ہر شخص گزرتا ہے ۔یقینا ان کی زندگی میں بھی بہت سے نشیب و فراز آئے ہوں گے لیکن کبھی کسی رفیق پر اپنے مشکل حالات کو آشکار نہیں کیا ،وہ اپنے مسائل خود حل کرنے اور مشکلات کو آسانی میں بدلنے کا ہنر جاتے تھے ۔بقول جگرمراد آبادی:
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
وہ حقیقی محبت کے ترجمان تھے ۔وہ محبت کے تقاضوں کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ ان کو عملی جامہ بھی پہناتے تھے ۔انھیں اپنے مادر علمی ،اپنے اسلاف ،اپنے اساتذہ اور اپنے احباب سے بے پناہ محبت تھی۔ایسی محبت جو ان کے روئیں روئیں سے ٹپکتی تھی ۔پیاسے لوگ اس دریائے محبت سے سیراب ہوکر اپنی تشنگی دور کرتے تھے ۔
ان کی خوبی یہ تھی کہ جس شخص سے ان کا ایک بار تعلق قائم ہوجاتا وہ تعلق صرف رسم کی حد تک نہیں رہتا بلکہ دن بہ دن مضبوط ہوتا رہتا ۔وہ طلبہ عزیز کو بھی اس قدر محبت سے سمجھاتے کہ وہ ان کے گرویدہ ہوجاتے اور ان کی ہدایات کو دل سے ماننے پر مجبور ہوتے ۔
مولانا ایک اچھے انسان اور منتظم کے ساتھ ساتھ ایک بہترین معلم تھے۔ان کی عملی زندگی کا آغاز نخاس لکھنؤ میں واقع ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں تدریسی فرائض کی انجام دہی سے ہوا۔ایک ذمہ دار ،ایک معلم اور ایک مربی کا سب سے اہم وصف دل سوزی اور مخلصانہ رویہ ہوتا ہے اور اللہ نے ان کو یہ نعمت بھر پور عطافرمائی تھی ۔آپ کا انداز درس جداگانہ تھا ۔جو کچھ پڑھاتے اس کا مطالعہ کرکے درجہ میں آتے ،قدیم کتابوں کو جدید اصطلاحات سے ہم آہنگ کرکے پڑھاتے ،طلبہ ان کی طرف اس طرح متوجہ رہتے کہ اگر کلاس میں سوئی بھی گرجائے تو اس کی آواز سنائی دے ۔
مولانا سیدمحمد جعفر مسعود حسنی ؒ صاحب علم و بصیرت اور عملی انسان تھے ۔وہ علم و عمل کا پیکر تھے ۔یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ علمی زیادہ تھے یا عملی زیادہ تھے ۔وہ اردو اور عربی زبان کے صاحب اسلوب ادیب اور قلم کار تھے ۔ان کے خطاب میں جوش سے زیادہ خلوص ہوتا ۔اسی خوبی کی بنا ان کا ہر لفظ سامعین کے دل میں اترتا جاتا تھا۔یعنی
اثر ہوا تو یہ تقریر کا کمال نہ تھا
مرا خلوص مخاطب تھا میں کہاں بولا
وہ فکر اسلامی و دعوت اسلامی عظیم سپہ سالار تھے ۔ان کی تحریروں اور خطابات میں فکر اسلامی مضمر ہوتی تھی ۔آپ البعث الاسلامی اور الرائد کے مدیر تھے۔آپ نے بلاشبہ سیکڑوں مضامین لکھے ۔اس کے علاوہ بھی آپ کی عربی تحریریں دنیائے عرب کے مجلات و جرائد میں چھپتی تھیں ۔آپ کی تحریروں میں فنی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔آپ نے پانچ کتابیں تصنیف کیں۔
.1فی مسیرۃ الحیاۃ (حضرت مولانا علی میاں ندوی کی خودنوشت ”کاروان زندگی” کا عربی ترجمہ)
.2الشیخ محمد یوسف الکاندہلوی؛ حیاتہ ومنہجہ فی الدعوۃ (محمد الحسنی الندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ )
.3الامام المحدث محمد زکریا الکاندہلوی ومآثرہ العلمیۃ (حضرت مولانا علی میاں ندوی کی اردو کتاب کا عربی ترجمہ )
.4دعوۃ للتأمل والتفکیر (دعوت فکر ونظر )
.5بصائر (حضرت مولانا علی میاں ندوی کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ)
دنیائے فانی میں آپ کا ورود مسعود 13 ستمبر 1965 کو تکیہ رائے بریلی، اترپردیش میں ہوا ۔آپ جس چمن میں پھول بن کر آئے اس چمن میں ہر طرف علم و معرفت اورزہدو تقویٰ کے پودے لہلہارہے تھے ۔ آپ کے والد ماجد مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو حضرت مولانا علی میاں ندوی کے حقیقی بھانجے تھے۔
آپ کی تعلیم کا آغاز تکیہ کلاں سے ہوا ۔جہاں آپ نے حفظ قرآن اور ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور علوم شرعیہ کے ساتھ عربی زبان وادب میں بھی مہارت پیدا کی، ندوہ العلماء لکھنؤ سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی سند حاصل کی اس کے بعد 1986 میں لکھنؤ یونیورسٹی سے عربی زبان وادب میں ایم اے کیا بعد ازاں 1990 میں سعودی عرب کی مشہور دانش گاہ ”جامعۃ الملک سعود” کے زیر اہتمام ٹیچرز ٹریننگ کا کورس مکمل کیا۔
آہ عجزو انکسار کا پیکر ،علم و دانش کا سمندر ،تحریر و قلم کا بادشاہ ،سادگی و بے نیازی کا علم بردار ،اپنے اجداد کا عکس جمیل ،لاکھوں دلوں کا مکین ،ہزاروں افراد کی امیدوں کا چراغ 15؍جنوری کی شام سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی بجھ گیا اور دنیاپر رات کی تاریکی کی طرح رنج و الم کی تاریکی بھی چھاگئی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون
اے پروردگار ہمارے بھائی سید محمد جعفر مسعود کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیے ۔ان کی فروگزاشتوں سے درگزر کیجیے ۔ابھی تو ان کی ہمیں بہت ضرورت تھی مگر اے ہمارے رب ہم آپ کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔