سپریم کورٹ کا بڑا اقدام: بہار کی ووٹر لسٹ سے 65 لاکھ ناموں کو ہٹائے جانے پر الیکشن کمیشن سے وضاحت طلب

سپریم کورٹ نے بہار کی ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے 65 لاکھ سے زائد رائے دہندگان کے ناموں کی اچانک حذف شدگی پر سخت نوٹس لیتے ہوئے بدھ کے روز الیکشن کمیشن آف انڈیا سے تفصیلی وضاحت طلب کی ہے۔ عدالت نے ہدایت دی ہے کہ الیکشن کمیشن ہفتہ تک مکمل تفصیل عدالت کے سامنے پیش کرے، جبکہ اس اہم معاملے کی آئندہ سماعت منگل 12 اگست کو ہوگی۔
یہ ہدایات جسٹس سوریا کانت کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس وقت جاری کیں جب ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) کی جانب سے سینئر وکیل پرشانت بھوشن اور نہا راتی نے معاملہ فوری سماعت کے لیے پیش کیا۔
ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے 65 لاکھ افراد کیوں خارج کیے گئے؟
الیکشن کمیشن نے یکم اگست کو بہار کے ووٹرز کی ڈرافٹ فہرست جاری کی تھی، جس میں سے تقریباً 65.6 لاکھ ووٹروں کے نام غائب تھے۔ کمیشن نے بعد میں وضاحت دی کہ ان میں سے:
22 لاکھ افراد کی موت ہو چکی تھی
36 لاکھ افراد یا تو مستقل طور پر نقل مکانی کر چکے تھے یا ان کا سراغ نہیں مل سکا
7 لاکھ افراد کے اندراجات دوہری (ڈپلیکیٹ) تھے
اس کے باوجود، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ان حذف شدہ افراد کے ناموں کے ساتھ وجہ درج نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے زمینی سطح پر جانچ اور اعتراض داخل کرنے کا موقع متاثر ہوا۔
مسلم اکثریتی اضلاع اور خواتین سب سے زیادہ متاثر؟
ایک تفصیلی جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حذف شدہ ووٹروں میں 55 فیصد خواتین شامل ہیں، جبکہ ریاست کے ان 5 اضلاع میں سب سے زیادہ نام خارج کیے گئے جہاں مسلم آبادی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ مثلاً:
گوپال گنج ضلع میں 15.1 فیصد ووٹر فہرست سے نکال دیے گئے
گوپال گنج اسمبلی حلقے میں ووٹروں کی تعداد 18.25 فیصد تک گھٹ گئی — جو کہ پورے بہار میں سب سے زیادہ کمی ہے
عدالت سے مطالبہ: مکمل فہرست اور ہر نام کے ساتھ وجہ کی اشاعت
درخواست میں سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ:
الیکشن کمیشن کو ہدایت دی جائے کہ اسمبلی حلقہ اور بوتھ سطح پر حذف شدہ 65 لاکھ ناموں کی فہرست عوامی طور پر جاری کرے
ہر نام کے ساتھ وجہ درج ہو کہ وہ کیوں خارج کیا گیا
ساتھ ہی ان تمام افراد کی فہرست بھی شائع کی جائے جن کی درخواستیں "غیر موزوں” قرار دے دی گئی ہیں
الیکشن کمیشن کا نیا اصول: شہریت کا ثبوت لازمی
الیکشن کمیشن نے 24 جون کو انتخابی فہرست کے خصوصی تجدیدی عمل کا اعلان کیا تھا۔ نئے اصولوں کے مطابق:
جن ووٹروں کے نام 2003 کی فہرست میں شامل نہیں تھے، انہیں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی
1 جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہونے والے افراد کو اپنی تاریخ اور مقام پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا
1987 سے 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں کو والدین میں سے کسی ایک کا ثبوت بھی دینا ہوگا
2004 کے بعد پیدا ہونے والے ووٹروں کو اپنے ساتھ ساتھ والدین کی مکمل شہریت کا ثبوت دینا ہوگا
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عمل نہ صرف پیچیدہ اور غیر ضروری ہے بلکہ آئینی حق رائے دہی پر بھی ضرب ہے۔ بالخصوص ان طبقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پہلے ہی شناخت اور دستاویزات کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں، جیسے:
خواتین
اقلیتیں، بالخصوص مسلم طبقہ
دیہی اور کم خواندہ آبادی

مسلمان بھائیوں کی شکایت پر ایف آئی آر درج نہ کرنے والے افسر کے خلاف کارروائی کا بامبے ہائی کورٹ نے دیا حکم

غیر مسلموں کو شہریت، مسلمانوں پر مقدمات برقرار — آسام حکومت کا دوہرا معیار؟