ہماچل پردیش میں سنجولی مسجد کا تنازع کافی زور پکڑ چکا ہے۔ اس معاملے پر ہندو تنظیمیں سڑکوں ہر اتر کر بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہی ہیں۔ پورے علاقے میں شدید کشیدگی پھیلی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ حالات کب کون سا رخ لے لیں۔ آئیے اس معاملے کی جڑ اور اب تک ہوئی پیش رفت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
سنجولی مسجد تنازع کی جڑ
ذرائع کے مطابق حال ہی میں سنجولی میں کچھ ہندو نوجوانوں کی کچھ مسلم نوجوانوں سے آپسی معاملے پر لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد وکرم نام کے ہندو نوجوان نے اس معاملے پر تھانے میں کیس درج کرایا اور اپنی شکایت میں دعویٰ کیا کہ لڑائی کے بعد ملزمین سنجولی مسجد میں چھپ گئے۔
ہندو تنظیموں کو اس معاملے کی بھنک لگتے ہی انہوں نے سنجولی مسجد کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور اس مسجد کو غیر قانونی قرار دے کر گرانے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد ہندو تنظیموں کا یہ مظاہرہ آہستہ آہستہ بڑی شکل اختیار کر گیا۔
قابل ذکر ہے کہ نوجوانوں کی لڑائی معاملے میں وکرم سنگھ کی شکایت پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے سبھی چھ ملزمین کو گرفتار بھی کر لیا۔ لیکن تب تک ہندو تنظیموں نے اس معاملے کو مسجد تنازع میں تبدیل کر دیا۔
ہماچل پردیش کے سنجولی میں واقع یہ مسجد کافی قدیم بتائی جا رہی ہے۔ پہلے تو مسجد میں نئے فلورز کی تعمیر کے خلاف آواز اٹھائی گئی، پھر بعد میں ہندو تنظیمیں اس پوری مسجد کو ہی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے منہدم کرنے کا مطالبہ کرنے لگی۔
سنجولی مسجد وقف بورڈ کی ملکیت
یہ مسجد وقف بورڈ کی بتائی جا رہی ہے اور یہ 1947 سے پہلے کی ہے۔ مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ یہ مسجد 1947 سے بھی پرانی ہے۔ حال ہی میں اس مسجد میں کچھ نئی تعمیرات کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق نوجوانوں کی آپسی لڑائی کو بے وجہ مسجد تنازع میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ معمولی لڑائی کے معاملے میں ہندو تنظیموں نے دخل دیتے ہوئے پوری مسجد کو ہی غیر قانونی بتانا شروع کر دیا ہے۔ آج اس مسجد کے خلاف ہندو تنظیموں نے ایک بار پھر شدید احتجاج کرتے ہوئے مسجد کو توڑنے کا مطالبہ کیا۔
عدالت کا تبصرہ
اس معاملے پر آٹھ اکتوبر کو مقامی عدالت میں سنوائی ہوئی۔ عدالت نے وقف بورڈ نے اسے اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے اسے ایک قدیم مسجد ہونے کے دعوے کو دہرایا۔ حالانکہ وقف بورڈ کے ذمہ داران نے عدالت کو بتایا کہ انہیں نہیں معلوم یہ مسجد ایک منزلہ عمارت سے چار منزلہ کس نے بنا دی؟
اس معاملے کی سماعت میونسپل کارپوریشن کمشنر (ایم سی) سنیل اتری کی عدالت میں ہوئی۔ اس معاملے میں سماعت کے دوران کمشنر سنیل اتری نے جے ای کی سرزنش کی اور سماعت 5 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ اس کے ساتھ ہی وقف بورڈ اور جے ای کو اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کے احکامات بھی دیے گئے ہیں۔ وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ جس جگہ پر مسجد بنائی گئی ہے وہ ان کی ہے مگر اضافی فلورز کے بارے میں انہیں جانکاری نہیں ہے۔
کانگریس لیڈران بھی ہندو تنظیموں کی حمایت میں
ہماچل پردیش میں فی الوقت کانگریس برسر اقتدار ہے۔ حال ہی میں یہاں ایک سینئر کانگریس لیڈر اور کابینی وزیر انیرودھ سنگھ نے ہندو تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انیرودھ سنگھ نے اس معاملے پر سخت گیر ہندو تنظیموں کا موقف اختیار کرتے ہوئے اسمبلی میں متنازع بیان دیا۔ وہیں اس سے قبل چار دن پہلے ہندو تنظیموں نے بھی ایک ریلی نکالی تھی، جس میں شملہ میونسپل کارپوریشن کے تین کانگریسی کونسلرز بھی شامل ہوئے اور مسجد کے باہر احتجاج کیا۔ اس دوران شہر میں یوپی سہارنپور کے لوگوں کی دکانیں بھی بند رہیں۔
اس معاملے پر مسلم رہنماؤں کا رد عمل
اس سے قبل اسی معاملے پر ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی نے سخت رد عمل دیتے ہوئے ریاست کی کانگریس حکومت پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے سوال کیا کہ ہماچل پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے یا بی جے پی کی؟ انہوں نے کانگریس پر بی جے پی کا موقف اختیار کرنے کا الزام عائد کیا۔