لکھنؤ/سنبھل، 28 اگست 2025: اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں 24 نومبر 2024 کو شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہونے والے ہنگامے پر قائم جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو پیش کر دی گئی ہے۔ رپورٹ کو تاحال عوامی طور پر جاری نہیں کیا گیا، جس پر مسلم تنظیموں اور سیاسی حلقوں نے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں اور شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ کمیشن الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں کام کر رہا تھا، جب کہ ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر امت موہن اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر اروِند کمار جین اس کے ارکان تھے۔ کمیشن کا مقصد واقعے کی اصل وجوہات، ذمہ داروں کی نشاندہی اور آئندہ کے لیے سفارشات تیار کرنا تھا۔
سماجوادی پارٹی کے ترجمان فخر الحسن چاند نے رپورٹ کی خفیہ نوعیت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا، “سنبھل جامع مسجد تنازعہ کے حوالے سے یہ عدالتی رپورٹ وزیر اعلیٰ یوپی کو سونپی گئی ہے، مگر میڈیا میں شیئر نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت خفیہ رپورٹ کے ذریعے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے۔”
جمعیتِ علمائے ہند کے رہنما مولانا ساجد رشیدی نے بھی رپورٹ پر سخت تحفظات ظاہر کیے۔ ان کے مطابق رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ضلع میں ہندو آبادی پہلے 45 فیصد تھی، جو اب 15 فیصد رہ گئی ہے کیونکہ بار بار ہونے والے ہنگاموں کے باعث لوگ نقلِ مکانی کر گئے۔ مولانا رشیدی نے اسے جانب داری پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ “سنبھل میں مندر کے حوالے سے بھی تنازعہ کی بات کی گئی، کہا گیا کہ مندر کی دیواریں ڈھک دی گئی ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ خود مندر کے پجاری نے تصدیق کی کہ کسی نے انہیں جانے پر مجبور نہیں کیا، وہ اپنے کام کی وجہ سے منتقل ہوئے۔ ان حقائق کے باوجود رپورٹ کو خفیہ پیش کرنا ممکنہ ہنگاموں کو بڑھا سکتا ہے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔” قابلِ ذکر ہے کہ کمیشن کی رپورٹ فی الحال منظرِ عام پر نہیں آئی، اس لیے ان بیانات کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
پس منظر کے طور پر، 24 نومبر 2024 کو شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہزاروں افراد کے جمع ہونے پر کشیدگی بھڑک اٹھی تھی۔ فائرنگ اور پتھربازی کے واقعات میں چار افراد جاں بحق ہوئے، جب کہ متعدد گاڑیاں نذرِ آتش کی گئیں اور بعد ازاں کئی مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔
قانونی پیش رفت میں، سپریم کورٹ نے سنبھل شاہی جامع مسجد تنازعہ میں اگلی سماعت تک جمود برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا، جب کہ جامع مسجد سروے معاملے میں مسلم فریق کی ایک عرضی الہ آباد ہائی کورٹ نے مسترد کر دی تھی۔ مسلمان فریقین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں کمیشن کی رپورٹ کو خفیہ رکھنا شکوک و شبہات کو بڑھاتا ہے اور اعتماد سازی کے عمل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
مسلم تنظیموں اور مقامی رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ:
کمیشن کی مکمل رپورٹ فوراً عوام کے سامنے رکھی جائے۔
واقعے کی غیر جانب دارانہ تفتیش کے بعد ذمہ داروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہو۔
جاں بحق اور زخمی افراد کے خاندانوں کو منصفانہ معاوضہ اور قانونی مدد فراہم کی جائے۔
بے گناہ گرفتار شدگان کے کیسز کی فوری اور شفاف جانچ کی جائے تاکہ کسی پر ناانصافی نہ ہو۔
سرکاری سطح پر کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات پر تاحال کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ مسلم حلقوں نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت شفافیت کو ترجیح دے کر رپورٹ کو پبلک کرے گی، تاکہ حقائق سامنے آئیں اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر و قابلِ عمل اقدامات کیے جا سکیں۔




